اس رکوع کو چھاپیں

سورة السجدۃ حاشیہ نمبر۲۰

 اوپر کے فقرے اور اس فقرے کے درمیان پوری ایک داستان کی داستان ہے جسے سامع کے ذہن پر چھوڑ دیا گیا ہے ۔ کفّار کا جو اعتراض پہلے فقرے میں نقل گیا ہے وہ اتنا مہمل ہے کہ اس کی تردید کی حاجت محسوس نہیں کی گئی۔ اس کا محض نقل کر دینا ہی اس کی لغویت ظاہر کرنے کے لیے کافی سمجھا گیا ۔ اس لیے کہ ان کا اعتراض جن دو اجزاء پر مشتمل ہے وہ دونوں ہی سراسر غیر معقول ہیں ۔ ان کا یہ کہنا کہ ’’ ہم مٹی میں رَل مِل چکے ہوں گے ‘‘ آخر کیا معنی رکھتا ہے ۔’’ہم‘‘ جس چیز کا نام ہے وہ مٹی میں کب رَ لتی مِلتی ہے ؟( مٹی میں تو صرف وہ جسم ملتا ہے جس سے ’’ہم ‘‘ نکل چکا ہوتا ہے ۔ اس جسم کا نام ’’ہم ‘‘ نہیں ہے ۔ زندگی کی حالت میں جب اس جسم کے اعضاء کاٹے جاتے ہیں تو عضو پر عضو کٹتا چلا جاتا ہے مگر ’’ہم ‘‘ ہم پورا کا پورا اپنی جگہ موجود رہتا ہے ۔ اس کا کوئی جُز بھی کسی کٹے ہوئے ع۔۔ضو کے ساتھ نہیں جاتا ۔ اور جب یہ ’’ہم ‘‘ کسی جسم میں سے نکل جاتا ہے تو پورا جسم موجود ہوتے ہوئے بھی اس پر اس ’’ہم ‘‘ کے کسی ادنی شائبے تک کا اطلاق نہیں ہوتا ۔اسی لیے تو ایک عاشق جاں نثار اپنے معشوق کے مُردہ جسم کو لے جا کر دفن کر دیتا ہے ‘ کیونکہ معشوق اس جسم سے نکل چکا ہوتا ہے ۔ اور وہ معشوق نہیں بلکہ اس کا خالی جسم کو دفن کر تا ہے جس میں کبھی اس کا معشوق رہتا تھا ۔پس معترضین کے اعتراض کا پہلا مقدمہ ہی بے بنیاد ہے ۔ رہا اس کا دوسرا جز: ’’ کیا ہم پھر نئے سرے سے پیدا کیے جائیں گے ‘‘ ؟تو یہ ا نکار و تعجب کے انداز کا سوال سرے سے پیدا ہی نہ ہوتا اگر معترضین نے بات کرنے سے پہلی اس ’’ ہم‘‘ اس اس کے پیدا کیے جانے کے مفہوم پر ایک لمحہ کے لیے کچھ غور کر لیا ہوتا۔اس ’’ہم‘‘ کی موجودہ پیدائش اس کے سوا کیا ہے کہیں لوہا اور اسی طرح کے دوسرے اجزاء جمع ہوئے اور اس کالبُد خاکی میں یہ ’’ ہم‘‘ براجمان ہو گیا ۔ پھر اس کی موت کے بعد کیا ہوتا ہے ؟ اس لبدِ خاکی میں سے جب ’’ہم‘‘ نِکل جاتا ہے تو اس کا مکان تعمیر کرنے کے لیے جو اجزاء زمین کے مختلف حصوں سے فراہم کیے گئے تھے وہ سب اسی زمین میں واپس چلے جاتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ جس نے پہلے اس ’’ ہم ‘‘کو یہ مکان بنا کر دیا تھا، کیا وہ دوبارہ اسی سر و سامان سے وہی مکان بنا کر اسے از سر نو اس میں نہیں بسا سکتا ؟ یہ چیز جب پہلے ممکن تھی اور واقعہ کی صورت میں رونما ہو چکی ہے ، تو دوبارہ اس کے ممکن ہونے اور واقعہ بننے میں آخر کیا امر مانع ہے ؟ یہ باتیں ایسی ہیں جنہیں ذرا سی عقل آدمی استعمال تو خود ہی سمجھ سکتا ہے ۔ لیکن وہ اپنی عقل کو اس رُخ پر کیوں نہیں جانے دیتا ؟ کیا وجہ ہے کہ وہ بے سوچے سمجھے حیات بعد الموت اور آخرت پر اس طرح کے لا یعنی اعتراضات جڑتا ہے ؟بیچ کی ساری بحث چھوڑ کر اللہ تعالیٰ دوسرے فقرے میں اسی فقرے میں اسی سوال کا جواب دیتا ہے کہ ’’دراصل یہ اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں ‘‘۔یعنی اصل بات یہ نہیں ہے کہ دوبارہ پیدائش کوئی بڑی ہی انوکھی اور بعید از امکان بات ہے جو ان کی سمجھ میں نہ آسکتی ہو، بلکہ دراصل جو چیز انہیں یہ بات سمجھنے سے روکتی ہے وہ ان کی یہ خواہش ہے کہ ہم زمین میں چھُوٹے پھریں اور دِل کھول کر گناہ کریں اور پھر نِلُوہ (Scot-ires )یہاں سے نکل جائیں ۔پھر ہم سے کوئی پوچھ کچھ نہ ہو ۔ پھر اپنے کرتوتوں کا کوئی حساب ہمیں نہ دینا پڑے ۔