اس رکوع کو چھاپیں

سورة السجدۃ حاشیہ نمبر۲١

یعنی تمہارا ’’ہم ‘‘ مِٹی میں رَل مِل نہ جائے گا، بلکہ اس کی مہلتِ عمل ہوتے ہی خدا کا فرشتہ ، موت آئے گا اور اُسے جسم سے نکال کر سَمُوچا اپنے قبضے میں لے لے گا ۔ اُس کا کوئی ادنیٰ جُز بھی جسم کے ساتھ مِٹی میں نہ جا سکے گا ۔ اور وہ پورا کا پورا حراست(Cuatody )میں لے لیا جائے گا اور اپنے رب کے حضور پیش کر دیا جائے گا ۔
اس مختصر سی آیت میں بہت سے حقائق پر روشنی ڈالی گئی ہے جن پر سے سرسری طور پر نہ گزر جائیے :
۱)۔اس میں تصریح ہے کہ موت کچھ یوں ہی نہیں آ جاتی کہ ایک گھڑی چل رہی تھی ، کُوک ختم ہوئی اور وہ چلتے چلتے یکایک بند ہو گئی ۔ بلکہ دراصل اس کام کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک خاص فرشتہ مقرر کر رکھا ہے جو آ کر باقاعدہ رُوح کو ٹھیک اُسی طرح وصول کرتا ہے جس طرح ایک سرکاری امین (Official Receiver )کسی چیز کو اپنے قبضے میں لے لیتا ہے ۔ قرآن کے دوسرے مقامات پر اس کی مزید تفصیلات جو بیان کی گئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس افسرِ موت کے ماتحت فرشتوں کا ایک پورا عملہ ہے جو موت وارد کرنے اور روح کو جسم سے نکالنے اور اس کو قبضے میں لینے کی بہت سی مختلف النوع خدمات انجام دیتا ہے ۔ نیز یہ کہ اس عملے کا برتاؤ مجرم روح کے ساتھ کچھ اَور ہوتا ہے اور مومنِ صالح رُوح کے ساتھ کچھ اور۔(اِن تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ نساء، آیت ۹۷۔الانعام ، ۹۳۔ النحل ، ۲۸۔ الواقعہ، ۸۳۔۹۴۔
۲)۔اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ موت سے انسان معدوم نہیں ہو جاتا بلکہ اس کی روح جسم سے نکل کر باقی ر ہتی ہے ۔قرآن کے الفاظ ’’ موت کا فرشتہ تم کو پورا کا پورا اپنے قبضے میں لے لیگا ۔ ‘‘ اسی حقیقت پر دلالت کرتے ہیں کیونکہ کوئی معدوم چیز قبضے میں لینے کا تو مطلب ہی یہ ہے کہ مقبوضہ چیز قابض کے پاس رہے ۔
۳) اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ موت کے وقت جو چیز قبضے میں لی جاتی ہے وہ آدمی کی حیوانی زندگی (Biological life )نہیں بلکہ اس کی وہ خود ی ‘ اس کی وہ  اَنا (Ego )ہے جو ’’ میں ‘‘ اور ’’ ہم‘‘ اور’’ تم‘‘ کے الفاظ تعبیر کی جاتی ہے ۔یہ انا دنیا میں کام کر کے جیسی کچھ شخصیت بھی بنتی ہے وہ پوری جوں کی توں (Intact )نکال لی جاتی ہے بغیر اس کے کہ اس کے اوصاف میں کو ئی کمی بیشی ہو ۔ اور ہی چیز موت کے بعد اپنے رب کی طرف پلٹا ئی جاتی ہے ۔ اسی کو آخرت میں نیا جنم اور نیا جسم دیا جائے گا  اُسی پر مقدمہ قائم کیا جائے گا ‘ اسی سے حساب لیا جائے گا اور اسی کو جزا و سزا دیکھنی ہو گی ۔