اس رکوع کو چھاپیں

سورة السجدۃ حاشیہ نمبر۳۵

خطاب بظاہری نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے ، مگر دراصل مخاطب وہ لوگ ہیں جو حضورؐ کی رسالت میں ، اور آپ کے اوپر کتاب اِلٰہی کے نازل ہونے میں شک کر رہے تھے ۔ یہاں سے کلام کا رخ اسی مضمون کی طرف پھر رہا ہے جو آغاز سورہ (آیات نمبر ۲ اور ۳ )میں بیان ہوا تھا ۔ کفارِ مکہ کہہ رہے تھے کہ محمد(صلی اللہ علیہ و سلم) پر خدا کی طرف سے کوئی کتاب نہیں آئی ہے انہوں نے اسے خود گھڑ لیا ہے اور دعویٰ یہ کر رہے ہیں کہ خدا نے اسے نازل کیا ہے ۔ اس کا ایک جواب ابتدائی آیات میں دیا گیا تھا ۔ اب اس کا دوسرا جواب دیا جا رہا ہے ۔ اس سلسلے میں پہلی بات جو فرمائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اے نبی یہ نادان لوگ تم پر کتابِ الٰہی کے نازل ہو نے کو اپنے نزدیک بعید از امکان سمجھ رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہر دوسرا شخص بھی اگر اس کا انکار نہ کرے تو کم از کم اس کے متعلق شک ہی میں پڑ جائے ۔ لیکن ایک بندے پر خدا کی طرف سے کتاب نازل ہونا ایک نرالا واقعہ تو نہیں ہے جو انسانی تاریخ میں آج پہلی مرتبہ ہی پیش آیا ہو ۔ اس سے پہلے متعدد انبیاء پر کتابیں نازل ہو چکی ہیں جن سے مشہور ترین کتاب وہ ہے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام)کو دی گئی تھی ۔لہٰذا اسی نوعیت کی ایک چیز آج تمہیں دی گئی ہے تو آج آخر اس میں انوکھی بات کیا ہے جس پر خواہ مخواہ شک کیا جائے ۔