یعنی تمہاری نزدیک جو ایک ہزار برس کی تاریخ ہے وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں گویا ایک دن کا کام ہے جس کی اسکیم آج کارکنان قضا و قدر کے سپرد کی جاتی ہے اور کل وہ اس کی روداد اس کے حضور پیش کرتے ہیں تاکہ دوسرے دن ( یعنی تمہارے حساب سے ایک ہزار برس ) کا کام ان کے سپرد کیا جائے ۔ قرآن مجید میں یہ مضمون دو مقامات پر اور بھی آیا ہے جنہیں نگاہ میں رکھنے سے اس کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آ سکتا ہے ۔ کفّارِ عرب کہتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کو نبوت کا دعویٰ لے کر سامنے آئے کئی برس گزر چکے ہیں ۔ وہ بار بار ہم سے کہتے ہیں کہ اگر میری اس دعوت کو تم لوگ قبول نہ کرو گے اور مجھے جھٹلاؤ گے تو تم پر خدا کا عذاب آ جائے گا ۔ مگر کئی برس سے وہ اپنی یہ بات دوہرائے جا رہے ہیں اور آج تک عذاب نہ آیا ، حالانکہ ہم ایک دفعہ نہیں ہزاروں مر تبہ انہیں صاف صاف جھٹلا چکے ہیں ۔ اُن کی یہ دھمکیاں واقعی سچی ہوتیں تو ہم پر نہ معلوم کبھی کا عذاب آ چکا ہوتا۔ اس پر اللہ تعالیٰ سُورۂ حج میں فرماتا ہے : |