اس رکوع کو چھاپیں

سورة السجدۃ حاشیہ نمبر۹

یعنی تمہاری نزدیک جو ایک ہزار برس کی تاریخ ہے وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں گویا ایک دن کا کام ہے جس کی اسکیم آج کارکنان قضا و قدر کے سپرد کی جاتی ہے اور کل وہ اس کی روداد اس کے حضور پیش کرتے ہیں تاکہ دوسرے دن ( یعنی تمہارے حساب سے ایک ہزار برس ) کا کام ان کے سپرد کیا جائے ۔ قرآن مجید میں یہ مضمون دو مقامات پر اور بھی آیا ہے جنہیں نگاہ میں رکھنے سے اس کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آ سکتا ہے ۔ کفّارِ عرب کہتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کو نبوت کا دعویٰ لے کر سامنے آئے کئی برس گزر چکے ہیں ۔ وہ بار بار ہم سے کہتے ہیں کہ اگر میری اس دعوت کو تم لوگ قبول نہ کرو گے اور مجھے جھٹلاؤ گے تو تم پر خدا کا عذاب آ جائے گا ۔ مگر کئی برس سے وہ اپنی یہ بات دوہرائے جا رہے ہیں اور آج تک عذاب نہ آیا ، حالانکہ ہم ایک دفعہ نہیں ہزاروں مر تبہ انہیں صاف صاف جھٹلا چکے ہیں ۔ اُن کی یہ دھمکیاں واقعی سچی ہوتیں تو ہم پر نہ معلوم کبھی کا عذاب آ چکا ہوتا۔ اس پر اللہ تعالیٰ سُورۂ حج میں فرماتا ہے :   
     وَیَسْتَعْجِلُوْ نَکَ بِاعَذَابِ وَلَنْ یُّخْلِف
       اللہُ وَعْدَہٗ وَ اِنَّ یَوْمًاعِنْدَ رَبِّکَ کَاَلْفِ
       سَنَۃٍ مِمَّا تَعُدُّوْنَ o (آیت ۴۷)
یہ لوگ عذاب کے لیے جلدی مچا رہے ہیں ۔   اللہ ہرگز اپنے وعدے کے خلاف نہ کرے گا۔ مگر تیرے رب کے ہاں کا ایک دن تم لوگوں کے شمار سے ہزار برس جیسا ہوا کرتا ہے ۔
      دوسری جگہ اسی بات کا جواب یہ دیا گیا ہے :
      سَاَلَ سَآئِلُٗ م  بِعَذَابٍ وَّاقِعٍ(oلا) لِلْکٰفِرِیْنَ لَیْسَ لَہٗ دَافِعُٗ(oلا)مِّنَ اللّٰہ ذِی الْمَعَارِجِ O   تَعْرُجُ الْمَلٰٓئِکَۃُ والرُّوْحُ اِلَے ْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗ  خَمْسِیْنَ اَلْفَ سَنَۃٍOفَا صْبِرْ صَبْرًاجَمِے ْلًاoاِنَّھُمْ یَرَوْنَہٗ بَعِیْدًا (oلا)وَّنَرٰہٗ قَرِیْباًoط (المعارج ۔آیات ۱۔۷)
   پوچھنے والا پوچھتا ہے اُس عذاب کو جو واقع   ہونے والا ہے کافروں کے لیے جس کو  دفع کرنے والا کوئی نہیں ہے ، اُس خدا  کی طرف سے جو چَڑھتے درجوں والا ہے (یعنی درجہ بدرجہ کام کرنے والا )۔چَڑھتے ہیں اس کی طرف ملائکہ اور روح ایک ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار برس ہے ۔ پس اے نبی ! صبر جمیل سے کام لو ۔ یہ لوگ اسے دور سمجھتے ہیں اور ہم اسے قریب دیکھ رہے ہیں ۔
 ان تمام ارشادات سے جو بات ذہن نشین کرائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ انسانی تاریخ میں خدا کے فیصلے دنیا کی گھڑیوں اور جنتریوں کے لحاظ سے نہیں ہوتے ۔ کسی قوم سے اگر کہا جائے کہ تم فلاں روش اختیار کرو گے تو اس کا انجام تمہیں یہ کچھ دیکھنا ہو گا، تو وہ قوم سخت احمق ہو گی اگر اس کا مطلب سمجھے کہ آج وہ روش اختیار کی جائے اور کل اس کے بُرے نتائج سامنے آ جائیں ۔ ظہور نتائج کے لیے دن اور مہینے اور سال تو کیا چیز ہیں ، صدیاں بھی کوئی بڑی مدّت نہیں ہیں ۔