اس رکوع کو چھاپیں

سورة الاحزاب حاشیہ نمبر١

جیسا کہ ہم اس سورہ کے دیباچے میں بیان کر چکے ہیں ، یہ آیت اس وقت نازل ہوئی تھیں جب حضرت زید ؓ حضرت زینبؓ کو طلاق دے چکے تھے۔اُس وقت نبی صلی اللہ علیہ و سلم خود بھی یہ محسوس فرما تے تھے اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد بھی یہی تھا کہ مُنہ بولے رشتوں کے معاملہ میں جاہلیت کے رسوم و اَوہام پر ضرب لگانے کا یہ ٹھیک موقع ہے ، اب آپ خود آگے بڑھ کر اپنی منہ بولے بیٹے (زیدؓ)کی مطلّقہ سے نکاح کر لینا چاہیے تاکہ یہ رسم قطعی طور پر ٹوٹ جائے۔ لیکن جس وجہ سے حضورؐ اس معاملہ میں قدم اُٹھاتے ہوئے جھجک رہے تھے وہ یہ خوف تھا کہ اس سے کفار و منافقین کو، جو پہلے ہی آپؐ کی پے درپے کامیابیوں سے جلے بیٹھے تھے ، آپؐ کے خلاف پروپیگینڈا کرنے کے لیے زبردست ہتھیار مل جائے گا۔ یہ خوف کچھ اپنی بدنامی کے اندیشے سے نہ تھا کہ اس سے اسلام کو زک پہنچے گی ، دشمنوں کے پروپیگینڈے سے متاثر ہو کر بہت اے لوگ جو اسلام کی طرف میلان رکھتے ہیں بدگمان ہو جائیں گے ، بہت سے غیر جانبدار لوگ دشمنوں میں شامل ہو جائیں گے ،اور خود مسلمانوں میں سے کمزور عقل و ذہن کے لوگ شکوک و شبہات میں پڑجائیں گے۔ اس لیے حضورؐ یہ خیال کرتے تھے کہ جاہلّیت کی ایک رسم کو توڑنے کی خاطر ایسا قدم اُٹھانھ خلاف مصلحت ہے جس اسلام کے عظیم تر مقاصد کو نقصان پہنچ جائے۔