اس رکوع کو چھاپیں

سورة الاحزاب حاشیہ نمبر١١١

’’ پہچان لی جائیں ‘‘سے مراد یہ ہے کہ ان کو س سادہ اور حیا دار لباس میں دیکھ کر ہر دیکھنے والا جان لے کہ وہ شریف اور با عصمت عورتیں ہیں ، آوارہ اور کھلاڑی نہیں ہیں کہ کوئی بد کردار انسان ان سے اپنے دِل کی تمنّا پوری کرنے کی اُمید کر سکے۔ نہ ’’ستائی جائیں ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ ان کو نہ چھیڑا جائے ، ان سے تعرّض نہ کیا جائے۔
     اس مقام پر ذرا ٹھیر کر یہ سمجھنے کی کوشش کیجیے کہ قرآن کا یہ حکم، اور وہ مقصدِ حکم جو اللہ تعالیٰ نے خود بیان کر دیا ہے ، اسلامی قانونِ معاشرت کی کیا رُوح ظاہر کر رہا ہے۔ اس سے پہلے سورۂ نور ، آیت ۳۱ میں یہ ہدایت گزر چکے ہے کہ عورتیں اپنی آرائش و زیبائش کو فلاں فلاں قسم کے مردوں اور عورتوں کے سوا کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں۔ ’’ اور زمین پر پاؤں مارتے ہوئی بھی نہ چلیں کہ لوگوں کو اُس زینب کا علم ہو جو انہوں نے چھپا رکھی ہے ‘‘۔اُس حکم کے ساتھ اگر سورۂ احزاب کی اِس آیت کو ملا کر پڑھا جائے تو صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ یہاں چادر اوڑھنے کا جو حکم ارشاد ہوا ہے اس کا منشا اجنبیوں سے زینت چھپانا ہی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ منشا اسی صورت میں پورا ہو سکتا ہے جبکہ چادر بجائے خود سادہ ہو، ورنہ ایک مزیّن اور جاذبِ نظر کپڑا لپیٹ لینے سے تو یہ منشا اُلٹا اور فوت ہو جائگا۔ اس پر مزید یہ کہ اللہ تعالیٰ صرف چادر لپیٹ کر زینت چھپانے ہی کا حکم نہیں دے رہا ہے بلکہ یہ بھی فرما رہا ہے کہ عورتیں چادر کا ایک حصّہ اپنے اوپر سے لٹکا لیا کریں۔ کوئی معقول آدمی اس ارشاد کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں لے سکتا کہ اس سے مقصود گھونگھٹ ڈالنا ہے تاکہ جسم و لباس کی زینت چھپنے کے ساتھ ساتھ چہرہ بھی چھُپ جائے۔ پھر اس حکم کی علّت اللہ تعالیٰ خود یہ بیان فرماتا ہے کہ یہ وہ مناسب ترین طریقہ ہے جس سے یہ مسلمان خواتین پہچان لی جائیں اور اذیت سے محفوظ رہیں گی۔ اس سے خود بخود یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ یہ ہدایت اُن عورتوں کو دی جا رہی ہے جو مردوں کی نظر بازی اور ان کے شہوانی التفات سے لذّت اندوز ہونے کے بجائے اس کو اپنے لیے تکلیف دِہ اور اذیت ناک محسوس کرتی ہیں ، جو معاشرے میں اپنے آپ کو آبرو باختہ شمعِ انجمن قسم کی عورتوں میں شمار نہیں کرانا چاہتیں ،بلکہ عفت مآب چراغِ خانہ ہونے کی حیثیت سے معروف ہونا چاہتے ہیں۔ ایسی شریف اور نیک خواتین سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم فی الواقع اس حیثیت سے معروف ہونا چاہ رہی ہو اور مردوں کی ہوسناک توجہات حقیقت میں تمہارے لیے موجب لذت نہیں بلکہ موجب اذیّت ہیں تو پھر اس کے لیے مناسب طریقہ یہ نہیں ہے کہ تم خوب بناؤ سنگھار کر کے پہلی رات کی دُلہن بن کر گھروں سے نِکلو اور دیکھنے والوں کی حریص نِگاہوں کے سامنے اپنا حُسن اچھی طرح نکھار نکھار کر پیش کرو، بلکہ اس غرض کے لیے تو مناسب ترین طریقہ یہی ہو سکتا ہے کہ تم ایک سادہ چادر میں اپنے ساری آرائش و زیبائش کو چھپا کر نِکلو ، اپنے چہرے پر گھونگھٹ ڈالو اور اس طرح چلو کہ زیور کی جھنکار بھی لوگوں کو تمہاری طرف متوجہ نہ کرے۔ جو عورت باہر نکلنے سے پہلے بن ٹھن کر تیار ہوتی ہے اور اس وقت تک گھر سے قدم نہیں نکالتی جب تک سات سنگھار نہ کر لے ، اس کی غرض اس کے سوا آخر اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ دُنیا بھر کے مردوں کے لیے اپنے آپ کو جنت نگاہ بنانا چاہتی ہے اور انہیں خود دعوتِ التفات دیتی ہے۔ اس کے بعد اگر وہ یہ کہتی ہے کہ دیکھنے والوں کی بھوکی نگاہیں اسے تکلیف دیتی ہیں ، اس کے بعد اگر اس کا دعویٰ یہ ہے کہ وہ ’’معاشرے کی بیگم ‘‘اور ’’ مقبولِ عام خاتون‘‘ ہونے کی حیثیت سے معروف نہیں ہونا چاہتی بلکہ عفت مآب گھر گرہستن بن کر رہنا چاہتی ہے تو یہ ایک فریب کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ انسان کا قول اس کی نیت متعین نہیں کرتا بلکہ اس کی اسل نیت وہ ہوتی ہے جو اس کے عمل کی شکل اختیار کرتی ہے۔ لہٰذا جو عورت جاذِب نظر بن کر غیر مردوں کے سامنے جاتی ہے اس کا یہ عمل خود ظاہر کر دیتا ہے کہ اس کے پیچھے کیا محرکات کام کر رہے ہیں۔ اسی لیے فتنے کے طالب لوگ اس سے وہی توقعات وابستہ کرتے ہیں جو ایسی عورت سے وابستہ کی جا سکتی ہیں۔ قرآن عورتوں سے کہتا ہے کہ تم بیک وقت چراغ خانہ اور شمعِ انجمن نہیں بن سکتی ہو۔ چراغ خانہ بننا ہے تو اُن طور طریقوں کو چھوڑ دو جو شمعِ انجمن بننے کے لیے موزوں ہیں۔ اور وہ طرز زِندگی اختیار کرو جو چراغ خانہ بننے میں مددگار ہو سکتا ہے۔
      کسی شخص کی ذاتی رائے خواہ قرآن کے موافق ہو یا اس کے خلاف، اور وہ قرآن کی ہدایت کو اپنے لیے ضابطۂ عمل کی حیثیت سے قبول کرنا چاہے یا نہ چاہے ، بہرحال اگر وہ تعبیر کی بددیانتی کا ارتکاب نہ کرنا چاہتا ہو تو وہ قرآن کا منشا سمجھنے میں غلطی نہیں کر سکتا۔ وہ اگر منافق نہیں ہے تو صاف صاف یہ مانے گا کہ قرآن کا منشا وہی ہے ، جو اوپر بیان کیا گیا ہے۔ اس کے بعد جو خلاف ورزی بھی وہ کرے گا یہ تسلیم کر کے کرے گا کہ وہ قرآن کے خلاف عمل کر رہا ہے یا قرآن کی ہدایت کو غلط سمجھتا ہے۔