اس رکوع کو چھاپیں

سورة الاحزاب حاشیہ نمبر١۳

اُسی خصوصیّت کی بنا پر جو اوپر مذکور ہوئی ، نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ایک خصوصیّت یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کی اپنی منہ بولی مائیں تو کسی معنی میں بھی ان کی ماں نہیں ہیں ، لیکن نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بیویاں اُسی طرح اُن کے لیے حرام ہیں جس طرح ان کی حقیقی مائیں حرام ہیں۔ یہ مخصوص معاملہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے سِوا دُنیا میں اور کسی انسان کے ساتھ نہیں ہے۔
اس سلسلے میں یہ بھی جان لینا چاہیے کہ ازواجِ نبی صلی اللہ علیہ و سلم صرف اِس معنی میں اُمہاتِ مومنین ہیں کہان کی تعظیم و تکریم مسلمانوں پر واجب ہے اور ان کے ساتھ کسی مسلمان کا نِکاح نہیں ہو سکتا تھا۔ باقی دوسری احکام میں وہ ماں کی طرح  نہیں ہیں۔ مثلاً ان کے حقیقی رشتہ داروں کے سوا باقی سب مسلمان اُن کے لیے غیر محرم تھے جن سے پردہ واجب تھا۔ ان کی صاحبزادیاں مسلمانوں کے لیے ماں جائی بہنیں نہ تھیں کہ ان سے بھی مسلمانوں کا نکاح ممنوع ہوتا۔ اُن کے بھائی بہن مسلمانوں کی لیے خالہ اور ماموں کے حکم میں نہ تھے۔ ان سے کسی غیر رشتہ دار مسلمان کو وہ میراث نہیں پہنچتی تھی جو ایک شخص کو اپنی ماں سے پہنچتی ہے۔
یہاں یہ امر بھی قابِلِ ذکر ہے کہ قرآن مجید کی رُو سے یہ مرتبہ تمام ازواجِ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو حاصل ہے جن میں لا محالہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی شامل ہیں۔لیکن ایک گروہ نے جب حضرت علی و فاطمہ رضی اللہ عنہما اور اُن کی اولاد کو مرکزِ دین بنا کر سارا نظامِ دین انہی کے گرد گھما دیا ، اور اس بنا پر دوسرے بہت سے صحابہؓ کے ساتھ حضرت عائشہ ؓ کو بھی ہدفِ لعن و طعن بنایا، تو ان کی راہ میں قرآن مجید کی یہ آیت حائل ہو گئی جس کی رُو سے ہر اُس شخص کو انھیں اپنی ماں تسلیم کرنا پڑتا ہے جو ایمان کا مدعی ہو۔ آخر کار اس شکل کو رفع کرنے کے لیے یہ عجیب و غریب دعویٰ کیا گیا کہ حضورؐ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علیؓ کو یہ اختیار دے دیا تھا کہ آپ کی وفات کے بعد آپ کی ازواج مطہرّات میں سے جس کو چاہیں آپ کی زوجیّت پر باقی رکھیں اور جسے چاہیں آپ کی طرف سے طلاق دے دیں۔ابو منصُور احمد بن ابو طالب طَبْرَسِی نے کتاب الاحتجاج میں یہ بات لکھی ہے اور سلیمان بن عبد اللہ البحرانی نے اسے نقل کیا ہے کہ حضورؐ نے حضرت علیؓ سے فرمایا : یا ابا الحَسَنَ انّ ھٰذاالشرف باقٍ ما دُمنا علیٰ طاعۃ اللہ تعالیٰ فا یّتھن عصت اللہ تعالیٰ بعدی بالخروج علیک فطلّقھا من الازواج واسقطھاس من شرف امّھات المؤمنین،(اے ابوالحسَن ! یہ شرف تو اسی وقت تک باقی ہے جب تک ہم لوگ اللہ کی اطاعت پر قائم رہیں۔لہٰذا میری بیویوں میں سے جو بھی میرے بعد تیرے خلاف خروج کر کے اللہ کی نافرمانی کرے اسے تُو طلاق دے دیجیو اور اس کو اُمّہات المؤمنین کے شرف سے ساقط کر دیجیو)۔
اصول روایت کے اعتبار سے تو یہ روایت سر اسر بے اصل ہے ہی لیکن اگر آدمی اسی سُورۂ احزاب کی آیات ۲۸۔ ۲۹ اور ۵۱۔۵۲ پر غور کرے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ روایت قرآن کے بھی خلاف پڑتی ہے۔ کیوں کہ آیت تخییر کے بعد جن ازواجِ مطہّرات نے ہر حال میں رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہی کی رفاقت کو اپنے لیے پسند کیا تھا انہیں طلاق دینے کا اختیار حضورؐ کو باقی نہ رہا تھا۔ اس مضمون کی تشریح آگے حاشیہ نمبر۴۲ و ۹۳ میں ہم نے کر دی ہے۔
علاوہ بریں ایک غیر متعصّب آدمی اگر محض عقل ہی سے کام لے کر اس رویت کے مضمون پر غور کرے تو صاف نظر آتا ہے کہ یہ انتہائی لغو ، اور رسولِ پاکؐ کے حق میں سخت توہین آمیز افترا ہے۔ رسول کا مقام تو بہت بالا تر و بر تر ہے ، ایک معمولی شریف آدمی سے بھی یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ اپنی وفات کے بعد اپنی بیوی کو طلاق دینے کی فکر کرے گا اور دُنیا سے رخصت ہوتے وقت اپنے داماد کو یہ اختیار دے جائے گا کہ اگر کبھی تیرا اس کے ساتھ جھگڑا ہو تو میری طرف سے تُو اُسے طلاق دے دیجیو۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ اہل البیت کی محبت کے مدّعی ہیں ان کے دلوں میں صاحب البیت کی عزّت و ناموس کا پاس کتنا کچھ ہے ، اور اس سے بھی گزر کر خود اللہ تعالیٰ کے ارشادات کا وہ کتنا احترام کرتے ہیں۔