اس رکوع کو چھاپیں

سورة الاحزاب حاشیہ نمبر١۵

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ بات یاد دلاتا ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام کی طرح آپ سے بھی اللہ تعالیٰ ایک پختہ عہد لے چکا ہے جس کی آپ کو سختی کے ساتھ پابندی کرنی چاہیے۔ اس عہد سے کونسا عہد مُراد ہے ؟ اوپر سے جو سلسلۂ کلام چلا آر ہا ہے اُس پر غور کرنے سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ اس سے مُراد یہ عہد ہے کہ پیغمبر اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کی خود اطاعت کرے گا اور دوسروں سے کرائے گا ، اللہ کی باتوں کو بے کم و کاست پہنچائے گا اور انہیں عملاً نافذ کرنے کی سعی و جہد میں کوئی دریغ نہ کرے گا۔ قرآن مجید میں اس عہد کا ذکر متعدّد متعدد مقامات پر کیا گیا ہے۔ مثلاً:
     شَرَعَ لَکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوْحاً وَّالَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآاِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہٖٓ اِبْرٰھِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسٰٓی اَنْ اَقِیْمُو االدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْافِیْہِ۔ط(الشُورٰی۔ آیت ۱۳)
اللہ تعالیٰ نے مقرر کر دیا تمہارے لیے وہ دین جس کی ہدایت کی تھی اس نے نوحؑ کو ، اور جس کی وحی کی گئی (اے محمدؐ) تمہاری طرف، اور جس کی ہدایت کی گئی ابراہیمؑ اور موسیٰؑ اور عیسیٰؑ کو۔ اس تاکید کے ساتھ کہ تم لوگ قائم کرو اس دین کو اور اس میں تفرقہ نہ کرو۔
     وَاِذْ اَخَذَاللہُ مِیْثَاقَ الَّذِیْنَ اُوْتُ االْکِتٰبَ لَتُبَیِّنُنَّہٗلِلن  وَلَاتَکْتُمُوْ نَہٗ۔ق(آل عمران۔ ۱۸۷)
اور یاد کرو اس بات کو کہ اللہ نے عہد لیا تھا اُن لوگوں سے جن کو کتاب دی گئی تھی کہ تم لوگ اس کی تعلیم کو بیان کرو گے اور اسے چھُپاؤ گے نہیں۔
وَاِذْ اَخَذْنَا مِیْثَا قَ بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللہَ۔ قف(البقرہ۔ ۸۳)
اور یاد کرو کہ ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا تھا کہ تم اللہ کے سِوا کسی کی بندگی نہ کرو گے۔
اَلَمْ یُؤْخَذْ عَلَیْھِمْ مِّیْثَاقْ الْکِتٰبِ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خُذُوْ امَٓااٰتَیْنٰکُمْ بِقُوَّۃٍوَّاذْکُرُوْامَافِیْہِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ۔oع (الاعراف۔ آیات ۱۶۹۔۱۷۱)
کیا اُن سے کتاب کا عہد نہیں لیا گیا تھا؟۔۔۔ مضبوطی کے سا تھ تھامو اُس چیز کو جو ہم نے تمہیں دی ہے اور یاد رکھو اس ہدایت کو جو اس میں ہے۔ توقع ہے کہ تم اللہ کی نافرمانی سے بچتے رہو گے۔
وَاذْکُرُوْانِِعْمَۃَاللہِ عَلَیْکُمْ وَمِیْثَاقَہُ الَّذِیْ وَاثَقَکُمْ بِہٖ لااِذْقُلْتُمْ سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا۔ًَ۔۔۔۔۔(المائدہ۔۷)
اور اے مسلمانو! یاد رکھو اللہ کے اس احسان کو جو اس نے تم پر کیا ہے اور اُس عہد کو جو اُس نے تم سے لیا ہے جبکہ تم نے کہا ’’ ہم نے سُنا اور اطاعت کی۔‘‘
      اس عہد کو اس سیاق و سباق میں اللہ تعالیٰ جس وجہ سے یاد دلا رہا ہے وہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم شماتتِ اعداء کے اندیشے سے منہ بولے رشتوں کے معاملہ میں جاہلیت کی رسم کو توڑ تے ہوئے جھجک رہے تھے۔ آپ کو بار بار یہ شرم لاحق ہو رہی تھی کہ معاملہ ایک خاتون سے شادی کرنے کا ہے۔ میں خواہ کتنی ہی نیک نیتی کے ساتھ محض اصلاح معاشرہ کی خاطر یہ کام کروں ، مگر دشمن یہی کہیں گے کہ یہ کام دراصل نفس پرستی کی خاطر کیا گیا ہے اور مصلح کا لبادہ اس شخص نے محض فریب دینے کے لیے اوڑھ رکھا ہے۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ حضورؐ سے فرما رہا ہے کہ تم ہمارے مقرر کیے ہوئے پیغمبر ہو ، تمام پیغمبروں کی طرح تم سے بھی ہمارا یہ پختہ معاہدہ ہے کہ جو کچھ بھی حکم ہم دیں گے اس کو خود بجا لاؤ گے اور دوسروں کو اس کی پیروی کا حکم دو گے ، لہٰذا تم کسی کے طعن و تشنیع کی پروانہ کرو، کسی سے شرم اور خوف نہ کرو، اور خدمت ہم تم سے لینا چاہتے ہیں اسے بِلا تأمّل انجام دو۔
      ایک گروہ اس میثاق سے وہ میثاق مُراد لیتا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے کے تمام انبیاء اور ان کی اُمّتوں سے اس بات کے لیے لیا گیا تھا کہ وہ بعد کے آنے والے نبی پر ایمان لائیں گے اور اس کا ساتھ دیں گے۔ اس تاویل کی بنیاد پر اس گروہ کا دعویٰ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد بھی نبوت کا دروازہ کھلا ہوا ہے اور حضورؐ سے بھی یہ میثاق لیا گیا ہے کہ آپؐ کے بعد جو نبی آئے آپؐ کی اُمّت اس پر ایمان لائے گی۔ لیکن آیت کا سیاق و سباق صاف بتا رہا ہے کہ یہ تاویل بالکل غلط ہے۔ جس سلسلۂ کلام میں یہ آیت آئی ہے اُس میں یہ کہنے کا سرے سے کوئی موقع ہے نہیں ہے کہ آپؐ کے بعد بھی انبیاء آئیں گے اور آپ کی اُمت کو ان پر ایمان لانا چاہیے۔ یہ مفہوم اس کالیا جائے تو یہ آیت یہاں بالکل بے محل ہو جاتی ہے۔ علاوہ بریں آیت کے الفاظ میں کوئی صراحت ایسی نہیں ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ یہاں میثاق سے کونسا میثاق مُراد ہے۔ لامحالہ اس کی نوعیت معلوم کرنے کے لیے ہم کو قرآن مجید کے دوسرے مقامات کی طرف رجوع کرنا ہو گا جہاں انبیاء سے لیے ہوئے مواثیق کا ذکر کیا گیا ہے۔ اب اگر سارے قرآن میں صرف ایک ہی میثاق کا ذکر ہوتا اور وہ بعد کے آنے والے انبیاء پر ایمان لانے کے بارے میں ہوتا تو یہ خیال کرنا درست ہوتا کہ یہاں بھی میثاق سے مُراد ہی میثاق ہے۔ لیکن قرآن پاک کو جس شخص نے بھی آنکھیں کھول کر پڑھا ہے وہ جانتا ہے کہ اس کتاب میں بہت سے میثاقوں کا ذکر ہے جو انبیاء علیہم السلام اور ان کی اُمتوں سے لیے گئے ہیں۔ لہٰذا اُن مختلف مواثیق میں سے وہ میثاق یہاں مُراد لینا صحیح ہو گا جو اس سیاق و سباق سے مناسبت رکھتا ہو ، نہ کہ وہ میثاق جس کے ذکر کا یہاں کوئی موقع نہ ہو۔ اسی طرح کی غلط تاویلوں سے یہ بات کھل جاتی ہے کہ بعض لوگ قرآن سے ہدایت لینے نہیں بیٹھتے بلکہ اُسے ہدایت دینے بیٹھ جاتے ہیں۔