اس رکوع کو چھاپیں

سورة الاحزاب حاشیہ نمبر۳۴

 جس سیاق و سباق میں یہ آیت ارشاد ہوئی ہے اس کے لحاظ سے رسُولؐ پاک کے طرزِ عمل کو اس جگہ نمونہ کے طور پر پیش کرنے سے مقصُود اُن لوگوں کو سبق دینا تھا جنہوں نے جنگِ احزاب کے موقع پر مفاد پرستی و عافیت کوشی سے کام لیا تھا۔ اُن سے فرمایا جا رہا ہے کہ تم ایمان و اسلام اور اتباعِ رسول کے مدّعی تھے۔ تم کو دیکھنا چاہیے تھا کہ جس رسولؐ کے پیروؤں میں تم شامل ہوئے ہو اُس کا اس موقع پر کیا رویّہ تھا۔ اگر کسی گروہ کا لیڈر خود عافیت کوش ہو۔ خود آرام طلب ہو، خود اپنے ذاتی مفاد کی حفاظت کو مقدم رکھتا ہو، خطرے کے وقت خود بھاگ نکلنے کی تیاریاں کر رہا ہو ، پھر تو اس کی پیروؤں کی طرف سے اِن کمزوریوں کا اظہار معقول ہو سکتا ہے۔ مگر یہاں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا حال یہ تھا کہ ہر مشقت جس کا آپؐ نے دوسروں سے مطالبہ کیا، اسے برداشت کرنے میں آپؐ خود سب کے ساتھ شریک تھے ، بلکہ دوسروں سے بڑھ کر ہی آپؐ نے دوسروں سے مطالبہ کیا، کوئی تکلیف ایسی نہ تھی جو دوستوں نے اُٹھائی ہو اور آپؐ نے نہ اُٹھائی ہو۔ خندق کھودنے والوں میں آپؐ خود شامل تھے۔ بھوک اور سردی کی تکلیفیں اُٹھانے میں ایک ادنیٰ مسلمان کے ساتھ آپؐ کا حصّہ بالکل برابر کا تھا۔ محاصرے کے دَوران میں آپؐ ہر وقت محاذ جنگ پر موجود رہے اور ایک لمحے کے لیے بھی دشمن کے مقابلے سے نہ ہٹے۔ بنی قریظہ کی غدّاری کے بعد جس خطرے میں سب مسلمانوں کے بال بچّے مبتلا تھے اسی میں آپؐ کے بال بچّے بھی مبتلا تھے۔ آپؐ نے اپنی حفاظت اور اپنے بال بچوں کی حفاظت کے لیے کوئی خاص اہتمام نہ کیا جو دوسرے مسلمانوں کے لیے نہ ہو۔ جس مقصدِ عظیم کے لیے آپؐ دوسروں سے قربانیوں کا مطالبہ کر رہے تھے اُس پر سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر آپؐ خود اپنا سب کچھ قربان کر دینے کو تیار تھے۔ اس لیے جو کوئی بھی آہؐ کے اتباع کا مدّعی تھا اسے یہ نمونہ  دیکھ کر اس کی  پیروی کرنی چاہیے تھی۔
یہ تو موقع محل کے لحاظ سے اس آیت کا مفہوم ہے۔ مگر اس کے الفاظ عام ہی اور اس کے منشا کو صرف اسی معنی تک محدود رکھنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ صرف اسی لحاظ سے اس کے رسولؐ کی زندگی مسلمانوں کے لیے نمونہ ہے ، بلکہ مطلقاً اسے نمونہ قرار دیا ہے۔ لہٰذا اس آیت کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان ہر معاملہ میں آپؐ کی زندگی کو اپنے لیے نمونے کی زندگی سمجھیں اور اس کے مطابق اپنی سیرت و کردار کو ڈھالیں۔