اس رکوع کو چھاپیں

سورة الاحزاب حاشیہ نمبر۳۸

 یعنی اس سیلابِ بلا کو دیکھ کر ان کے ایمان متزلزل ہونے کے بجائے اور زیادہ بڑھ گئے ، اور اللہ کی فرماں برداری سے بھاگ نکلنے کے بجائے وہ اور زیادہ یقین و اطمینان کے ساتھ اپنا سب کچھ اُس کے حوالے کر دینے پر آمادہ ہو گئے۔
اس مقام پر یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ ایمان و تسلیم دراصل نفس کی ایک ایسی کیفیت ہے جو دین کے ہر حکم اور ہر مطالبے پر امتحان میں پڑ جاتی ہے۔ دنیا کی زندگی میں ہر ہر قدم پر آدمی کے سامنے وہ مواقع آتے ہیں جہاں دین یا تو کسی چیز کا حکم دیتا ہے ، یا کسی چیز سے منع کرتا ہے ، یا جان اور مال اور وقت اور محنت اور خواہشاتِ نفس کی قربانیوں کا مطالبہ کرتا ہے۔ ایسے ہر موقع پر جو شخص اطاعت سے انحراف کرے گا اُس کے ایمان و تسلیم میں کمی واقع ہو گی ، اور جو شخص بھی حکم کے آگے سر جھکا دے گا اس کے ایمان و تسلیم میں اضافہ ہو گا۔ اگر چہ ابتداءً آدمی صرف کلمۂ اسلام کو قبول کر لینے سے مومن و مسلم ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ کوئی سکن و جامد حالت نہیں ہی جو بس ایک ہی مقام پر ٹھیری رہتی ہو، بلکہ اس میں تنزل اور ارتقاء دونوں کے امکانات ہیں۔ خلوص اور اطاعت میں کمی اس کے تنزّل کی موجب ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ ایک شخص پیچھے ہٹتے ہٹتے ایمان کی اس آخری سرحد پر پہنچ جاتا ہے جہاں سے یک سرِ مو بھی تجاوز کر جائے تو مومن کے بجائے منافق ہو جائے اس کے برعکس خلوص جتنا زیادہ ہو، اطاعت جتنی مکمل ہو اور دین حق کی سر بلندی کے لیے لگن اور دھُن جتنی بڑھتی چلی جائے ، ایمان اُسی نسبت سے پڑھتا چلا جاتا ہے ، یہاں تک کہ آدمی صدّیقیّت کے مقام تک پہنچ جاتا ہے لیکن یہ کمی و بیشی جو کچھ بھی ہے اخلاقی مراتب میں ہے جس کا حساب اللہ کے سوا کوئی نہیں لگا سکتا بندوں کے لیے ایمان بس ایک ہی اقرار تصدیق ہے جس سے ہر مسلمان داخِل اسلام ہوتا ہے اور جب تک اس پر قائم رہے۔ مسلمان مانا جاتا ہے۔ اس کے متعلق ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ آدھا مسلمان ہے اور یہ پاؤ ، یا یہ دوگنا مسلمان ہے اور یہ تین گنا۔ اسی طرح قانونی حقوق میں سب مسلمان یکساں ہیں ، یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی کو ہم زیادہ مومن کہیں اور اس کی حقوق زیادہ ہوں ، اور کسی کو کم مومن قرار دیں اور اس کے حقوق کم ہوں۔ اِن اعتبارات سے ایمان کی کمی و بیشی کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا اور دراصل اسی معنی میں امام ابو حنیفہؒ نے یہ فرمایا ہے کہ  الایمان لا یزید ولا ینقص،’’ایمان کم و بیش نہیں ہوتا‘‘۔