اس رکوع کو چھاپیں

سورة الاحزاب حاشیہ نمبر۴۲

اس آیت کے نزول کے وقت حضورؐ کے نکاح میں چار بیویاں تھیں ، حضرت سَودہؓ، حضرت حفصہؓ، اور حضرت ام سَلمہؓ۔ ابھی حضرت زینب ؓ سے حضورؐ کا نکاح نہیں ہوا تھا۔ (احکام لابن العربی طبع مصر  ۱۹۵۸ عیسوی ، جلد ۳،ص ۱۳۔۱۵۱۲)۔
جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپؐ نے سب سے پہلے حضرت عائشہ ؓ سے گفتگو کی اور فرمایا ’’ میں تم سے ایک بات کہتا ہوں ، جواب دینے میں جلدی نہ کرنا، اپنے والدین کی رائے لے لو، پھر فیصلہ کرو ‘‘پھر حضورؐ نے ان کو بتایا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم آیا ہے اور یہ آیت ان کو سنا دی۔ انھوں نے عرض کیا ،’’ کیا اس معاملہ کو میں اپنے والدین سے پوچھوں ؟میں تو اللہ اور اس کے رسولؐ اور دار آخرت کو چاہتی ہوں۔‘‘ اس کے بعد حضورؐ باقی ازواج مطہرات میں سے ایک ایک سے یہی بات فرمائی، اور ہر ایک نے وہی جواب دیا جو حضرت عائشہ ؓ نے دیا تھا۔ مسند احمد ، مسلم ، نَسائی)
      اِصطلاح میں اس کو تخییر کہتے ہیں ، یعنی بیوی کو اس امر کا اختیار دینا کہ وہ شوہر کے ساتھ رہنے یا اس سے جدا ہو جانے کے درمیان کسی ایک چیز کا خود فیصلہ کر لے۔ یہ تخییر نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر واجب تھی ، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا حضورؐ کو حکم دیا تھا۔ اگر ازواجِ مطہرات میں سے کوئی خاتون علیٰحدگی کا پہلو اختیار کرتیں تو آپؐ سے آپ جُدا نہ ہو جاتیں بلکہ حضورؐ کے جدا کرنے سے ہوتیں ، جیسا کہ آیت کے الفاظ’’ آؤ میں تمہیں کچھ دے دلا کر بھلے طریقے سے رخصت کر دوں ‘‘ سے ظاہر ہوتا ہے۔ لیکن حضورؐ پر یہ واجب تھا کہ اس صورت میں اُن کو جدا کر دیتے ، کیوں کہ نبی کی حیثیت سے آپ کا یہ منصب نہ تھا کہ اپنا وعدہ پورا نہ فرماتے۔ جدا ہو جانے کے بعد بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ اُمّہات المومنین کے زمرے سے خارج ہو جاتیں اور اُن سے کسی دوسرے مسلمان کا نکاح حرام نہ ہوتا ، کیوں کہ وہ دُنیا اور اس کی زینت ہی کے لیے تو رسُولِؐ پاک سے علیٰحدگی اختیار کرتیں جس کا حق انہیں دیا گیا تھا، اور ظاہر ہے کہ ان کا یہ مقصد نکاح سے محروم ہو جانے کی صورت میں پورا نہ ہو سکتا تھا۔ دوسری طرف آیت کا منشا یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جن ازواج نے اللہ اور اس کے رسولؐ اور دارِ آخرت کو پسند کر لیا انہیں طلاق دینے کا اختیار حضورؐ کے لیے باقی نہ رہا، کیوں کہ تخییر کے دو ہی پہلو تھے۔ ایک یہ کہ دنیا کو اختیار کرتی ہو تو تمہیں جُدا کر دیا جائے۔  دوسرے یہ کہ اللہ اور اس کے رسولؐ اور دار آخرت کو اختیار کرتی ہو تو تمہیں جدا نہ کیا جائے۔ اب ظاہر ہے کہ ان میں سے جو پہلو بھی کوئی خاتون کرنیں ان کے حق میں دوسرا پہلو آپ سے آپ ممنوع ہو جاتا تھا۔
    اسلامی فقہ میں تخییر دراصل تفویض طلاق کی حیثیت رکھتی ہے۔ یعنی شوہر اس ذریعہ سے بیوی کو اختیار دے دیتا ہے کہ چاہے تو اس کے نکاح میں رہے ورنہ الگ ہو جائے۔ اس مسئلہ میں قرآن و سنت سے استنباط کر کے فقہاء نے جو احکام بیان کیے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے :
     ۱۔ یہ اختیار ایک دفعہ عورت کو دے دینے کے بعد شوہر نہ تو اسے واپس لے سکتا ہے اور نہ عورت کو اُس کے استعمال سے روک سکتا ہے۔ البتہ عورت کے لیے یہ لازم نہیں ہے کہ وہ اس اختیار کو استعمال ہی کرے۔ وہ چاہے تو شوہر کے ساتھ رہنے پر رضا مندی ظاہر کر دے ، چاہے علیٰحدگی کا اعلان کر دے ، اور چاہے تو کسی چیز کا اظہار نہ کرے اور اس اختیار کو یوں ہی ضائع ہو جانے دے۔
      ۲۔اس اختیار کے عورت کی طرف منتقل ہونے کے لیے دو شرطیں ہیں۔ اوّل یہ کہ شوہر نے یا تو اسے صریح الفاظ میں طلاق کا اختیار دیا ہو، یا اگر طلاق کی تصریح نہ کی ہو تو پھر اس کی نیت یہ اختیار دینے کی ہو۔ مثلاً اگر وہ کہے ’’ تجھے اختیار ہے ‘‘ یا’’ تیرا معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے۔‘‘تو اس طرح کے کنایات میں شوہر کی نیت کے بغیر طلاق کا اختیار عورت کی طرف منتقل نہ ہو گا۔ اگر عورت اس کا دعویٰ کرے اور شوہر بحلف یہ بیان دے کہ اس کی نیت طلاق کا اختیار دینے کی نہ تھی تو شوہر کا بیان قبول کیا جائے گا۔ اِلّا یہ کہ عورت اس امر کی شہادت پیش کر دے کہ یہ الفاظ نا چاقی اور جھگڑے کی حالت میں ، یا طلاق کی باتیں کرتے ہوئے کہے گئے تھے ، کیوں کہ اس سیاق و سباق میں اختیار دینے کے معنی یہی سمجھے جائیں گے کہ شوہر کی نیت طلاق کا اختیار دینے کی تھی۔۔دوّم یہ کہ عورت کو معلوم ہو کہ یہ اختیار اسے دیا گیا ہے۔ اگر وہ غائب ہو تو اُسے اس کی اطلاع ملنی چاہیے ، اور اگر موجود ہو تو اسے یہ الفاظ سُننے چاہییں۔ جب تک وہ سُنے نہیں ، یا اسے اس کی خبر نہ پہنچے اختیار اس کی طرف منتقل نہ ہو گا۔
     ۳۔اگر شوہر کای وقت کی تعیین کے بغیر مطلقاً اس کو اختیار دے تو عورت اس اختیار کو کب تک استعمال کر سکتی ہے ؟ اس مسئلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ جس نشست میں شوہر اس سے یہ بات کہے اُسی نشست میں عورت اپنا اختیار استعمال کر سکتی ہے۔ اگر وہ کوئی جواب دیے بغیر وہاں سے اُٹھ جائے ، یا کسی ایسے کام میں مشغول ہو جائے جو اس بات پر دلالت کرتا ہو کہ وہ جواب نہیں دینا چاہتی ، تو اس کا اختیار باطل ہو جائے گا۔ یہ رائے حضرت عمرؓ،ِ حضرت عثمانؓ ، حضرت ابن مسعودؓ، حضرت جابرؓ بن عبد اللہ،جابر بن زید، عطاء، مجاہر، شَعبِی ، نَخَعِی، امام مالک، امام مالک، امام ابو حنیفہ، امام شافعی، امام اَوزاعی، سفیان ثَوری اور ابو ثَور کی ہے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ اس کا اختیار اس نشست تک محدود نہیں ہے بلکہ وہ اس کے بعد بھی اسے استعمال کر سکتی ہے۔ یہ رائے حضرت حَسَن بصری، قتَادہ اور زُہْری کی ہے۔
     ۴۔ اگر شوہر وقت کی تعیین کر دے ، مثلاً کہے کہ ایک مہینے یا ایک سال تک تجھے اختیار ہے ، یا اتنی مدّت تک تیرا معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے تو یہ اختیار اسی مدّت تک اس کو حاصل رہے گا۔ البتہ اگر وہ کہے کہ تو جب چاہے اس اختیار کو استعمال کر سکتی ہے تو اس صورت میں اس کا اختیار غیر محدود ہو گا۔ 
     ۵۔ عورت اگر علیٰحدگی اختیار کرنا چاہے تو اسے واضح اور قطعی الفاظ میں اس کا اظہار کرنا چاہیے۔ مبہم الفاظ جن سے مدّعا واضح نہ ہوتا ہو، مؤثر نہیں ہو سکتے۔
      ۶۔ قانوناً شوہر کی طرف سے عورت کو اختیار دینے کے تین صیغے ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ کہے ’’ تیرا معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے۔‘‘ دوسرے یہ کہ وہ کہے ’’ تجھے اختیار ہے ‘‘ تیسرے یہ کہ وہ کہے ’’ تجھے طلاق ہے اگر تو چاہے۔‘‘ ان میں سے ہر ایک کے قانونی نتائج الگ الگ ہیں :
  الف۔ ’’ تیرا معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے ‘‘ کے الفاظ اگر شوہر نے کہے ہوں اور عورت اس کے جواب میں کوئی صریح بات ایسی کہے جس سے ظاہر ہو کہ وہ علیٰحدگی اختیار کرتی ہے تو حنیفہ   کے نزدیک ایک طلاق بائن پڑ جائے گی(یعنی اس کے بعد شوہر کو رجوع کا حق نہ ہو گا ،   لیکن عدّت گزر جانے پر یہ دونوں پھر چاہیں تو باہم نکاح کر سکتے ہیں )۔ اور اگر شوہر نے    کہا ہو کہ’’ ایک طلاق کی حد تک تیرا معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے ‘‘ تو اس صورت میں ایک            طلاق رجعی پڑے گی( معنی عدّت کے اندر شوہر رجوع کر سکتا ہے ) لیکن اگر شوہر نے  معاملہ عورت کے ہاتھ میں دیتے ہوئے تین طلاق کی نیت کی ہو، یا اس کی تصریح کی ہو تو   اس صورت میں عورت کا اختیار طلاق ہی کا ہم معنی ہو گا خواہ و ہ بصراحت اپنے اوپر تین    طلاق وارد کرے یا صرف ایک بار کہے کہ میں نے علیٰحدگی اختیار کی یا اپنے آپ کو طلاق   دی۔
      ب ۔  ’’ تجھے اختیار ہے ‘‘ کے الفاظ کے ساتھ اگر شوہر نے عورت کو علیٰحدگی کا اختیار دیا ہو اور  عورت علیٰحدگی اختیار کرنے کی تصریح کر دے تو حنیفہ کے نزدیک ایک ہی طلاق بائن    پڑے گی خواہ شوہر کی نیت تین طلاق کا دینے کی ہو، البتہ اگر شوہر کی طرف سے تین  طلاق کا اختیار دینے کی تصریح ہو تب عورت کے اختیارِ طلاق سے تین طلاقیں واقع ہوں   گی۔ امام شافعیؒ کے نزدیک اگر شوہر نے اختیار دیتے ہوئے طلاق کی نیت کی ہو اور عورت علیٰحدگی اختیار کرے تو ایک طلاق رجعی واقع ہو گی۔امام مالک ؒ کے نزدیک    مدخولہ بیوی پر تین طلاقیں پڑ جائیں گی لیکن اگر غیر مدخولہ کے معاملہ میں شوہر ایک  طلاق کی نیت کا دعویٰ کرے تو اسے قبول کر لیا جائے گا۔
      ج۔  ’’ تجھے طلاق ہے اگر تو چاہے ‘‘ کہنے کی صورت میں اگر عورت طلاق کا اختیار استعمال کرے تو طلاق رجعی ہو گی نہ کہ بائن۔
         ۷۔ اگر مرد کی طرف سے علیٰحدگی کا اختیار دیے جانے کے بعد عورت اسی کی بیوی بن کر رہنے پر اپنی رضا مندی ظاہر کر دے تو کوئی طلاق واقع نہ ہو گی۔ یہی رائے حضرت عمرؓ، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، حضرت عائشہ ؓ ، حضرت ابو الدرداءؓ ، ابن عباسؓ، اور ابن عمرؓ، کی ہے اور اسی رائے کو جمہور فقہاء نے اختیار کیا ہے۔ حضرت عائشہؓ سے مسروق نے یہ مسئلہ دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا : خیّر رسُول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم  نساء ہ فا خترنہ  اکان ذٰلک طلاقاً؟’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے بیویوں کو اختیار دیا تھا اور انہوں نے حضورؐ ہی کے ساتھ رہنا پسند کر لیا تھا ، پھر کیا اسے طلاق شمار کیا گیا‘‘ ؟اس معاملہ میں صرف حضرت علیؓ اور زیدؓ بن ثابت کی یہ رائے منقول ہوئی ہے کہ ایک طلاق رجعی واقع ہو گی۔ لیکن دوسری روایت ان دونوں بزرگوں سے بھی یہی ہے کہ کوئی طلاق واقع نہ ہو گی۔