اس رکوع کو چھاپیں

سورة الاحزاب حاشیہ نمبر۴۵

 گناہ پر دوہرے عذاب اور نیکی پر دوہرے اجر کی وجہ یہ ہے کہ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ انسانی معاشرے میں کسی بلند مرتبے پر سرفراز فرماتا ہے وہ بالعموم لوگوں کے رہنما بن جاتے ہیں اور بندگانِ خدا کی بڑی تعداد بھلائی اور بُرائی میں انہی کی پیروی کرتی ہے۔ اُن کی بُرائی تنہا انہی کی بُرائی نہیں ہوتی بلکہ ایک قوم کے بگاڑ کی موجب بھی ہوتی ہے اور ان کی بھلائی صرف انہی کی انفرادی بھلائی نہیں ہوتی بلکہ بہت سے انسانوں کی فلاح کا سبب بھی بنتی ہے۔ اس لیے جب وہ بُرے کام کرتے ہیں تو اپنے بگاڑ کے ساتھ دوسروں کے بگاڑ کی بھی سزا پاتے ہیں۔ اور جب وہ نیک کام کرتے ہیں تو انہیں اپنی نیکی کے ساتھ اس بات کی جزا بھی ملتی ہے کہ انہوں نے دوسروں کو بھلائی کی راہ دکھائی۔
      اس آیت سے یہ اصول بھی نکلتا ہے کہ جہاں جتنی زیادہ حرمت ہو گی اور جس قدر زیادہ امانت کی توقع ہو گی، وہاں اسی قدر زیادہ ہتک حرمت اور ارتکابِ خیانت کا جرم شدید ہو گا اور اسی قدر زیادہ اس کا عذاب ہو گا۔ مثلاًمسجد میں شراب پینا اپنے گھر میں شراب پینے سے شدید تر جرم ہے اور اس کی سزا زیادہ سخت ہے۔ محرّمات سے زنا کرنا غیر عورت سے زنا کی بہ نسبت اشدّ ہے اور اس پر زیادہ سخت عذاب ہو گا۔