اس رکوع کو چھاپیں

سورة الاحزاب حاشیہ نمبر۴۸

 اصل میں لفظ قَرْنَ استعمال ہوا ہے۔ بعض اہلِ لغت نے اس کو ’’قرار ‘‘ سے ماخوذ بتایا ہے اور بعض نے ’’ وقار ‘‘ سے۔ اگر اس کو قرار سے لیا جائے تو معنی ہوں گے ’’ قرار پکڑو‘‘۔ ’’ ٹِک رہو ‘‘۔اور اگر وقار سے لیا جائے تو مطلب ہو گا ’’ سکون سے رہو‘‘، ’’ چین سے بیٹھو ‘‘۔ دونوں صورتوں میں آیت کا منشا یہ ہے کہ عورت کا اصل دائرہ عمل اس کا گھر ہے ، اُس کو اسی دائرے میں رہ کر اطمینان کے ساتھ اپنے فرائض انجام دینے چاہییں ، اور گھر سے باہر صرف بضرورت ہی نکلنا چاہیے۔ یہ منشا خود آیت کے الفاظ سے بھی ظاہر ہے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی احادیث اس کو اور زیادہ واضح کر دیتی ہیں۔ حافظ ابو بکر بَزّار حضرت انس ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ عورتوں نے حضورؐ سے عرض کیا کہ ساری فضیلت تو مرد لُوٹ لے گئے ، وہ جہاد کرتے ہیں اور خدا کی راہ میں بڑے بڑے کام کرتے ہیں۔ ہم کیا عمل کریں کہ ہمیں بھی مجاہدین کے برابر اجر مِل سکے ؟ جواب میں فرمایا  من قعدت منکن فی بیتھا فانھا تدرک عمل المجاھدین  جو تم میں سے گھر میں بیٹھے گی وہ مجاہدین کے عمل کو پالے گی‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ مجاہد دِل جمعی کے ساتھ اسی وقت تو خدا کی راہ میں لڑ سکتا ہے جبکہ اسے اپنے گھر کی طرف سے پورا اطمینان ہو، اس کے بیوی اس کے گھر اور بچوں کو سنبھالے بیٹھی ہو، اور اسے کوئی خطرہ اس امر کا نہ ہو کہ پیچھے وہ کوئی گُل کھِلا بیٹھے گی۔ یہ اطمینان جو عورت اسے فراہم کرے گی وہ گھر بیٹھے اس کے جہاد میں برابر کی حصّہ دار ہو گی۔ ایک اور روایت جو بزّار اور ترمذی نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے نقل کی ہے اس میں وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد بیان کرتے ہیں کہ  انّ المرأۃ عورۃ فاذ اخرجت استشرفھا الشیطان و اقرب ما تکون بروحۃ ربھاوھی فی قعربیتھا۔’’ عورت مستور رہنے کے قابل چیز ہے۔ جب وہ  نِکلتی ہے تو شیطان اس کو تاکتا ہے۔اور اللہ کی رحمت سے قریب تر وہ اُس وقت ہوتی ہے جبکہ وہ اپنے گھر میں ہو‘‘۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفسیر سُورۂ نور ، حاشیہ ۴۹)
     قرآن مجید کے اس صاف اور صریح حکم کی موجودگی میں اس بات کی آخر کیا گنجائش ہے کہ مسلمان عورتیں کونسلوں اور پارلیمنٹوں کی ممبر بنیں ، بیرون خانہ کی سوشل سرگرمیوں میں دَوڑتی پھریں ، سرکاری دفتروں میں مردوں کے ساتھ کام کریں ، کالجوں میں لڑکوں کے ساتھ تعلیم پائیں ، مردانہ ہسپتالوں میں نرسنگ کی خدمت انجام دیں ، ہوائی جہازوں اور ریل کاروں میں ’’ مسافر نوازی ‘‘ کے لیے استعمال کی جائیں ، اور تعلیم و تربیت کے لیے امریکہ و انگلستان بھیجی جائیں عورت کے بیرونِ خانہ سرگرمیوں کے جواز میں بڑی سے بڑی دلیل جو پیش کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے جنگِ جَمَل میں حصّہ لیا تھا۔ لیکن یہ استدلال جو لوگ پیش کرتے ہیں انہیں شاید معلوم نہیں ہے کہ خود حضرت عائشہؓ کا اپنا خیال اس باب میں کیا تھا۔ عبداللہ بن احمد بن   حنبل نے ز وائدالزھد میں ، اور ابن المُنذِر،  ابن ابی شَیْبَہ اور ابن سعد نے اپنی کتابوں میں مَسْروق کی روایت نقل کی ہے کہ حضرت عائشہؓ جب تلاوت قرآن کرتے ہوئے اِس آیت (وَقَرْنَ فِی بُیُوْتِکُنَّ)پر پہنچتی تھیں تو بے اختیار رو پڑتی تھیں یہاں تک کہ ان کا دوپٹّہ بھیگ جاتا تھا، کیونکہ اس پر انہیں اپنی وہ غلطی یاد آ جاتی تھی جو اُن سے جنگ جَمَل میں ہوئی تھی۔