جس سیاق و سباق میں یہ آیت وارد ہوئی ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہاں اہل البیت سے مُراد نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بیویاں ہیں۔ کیونکہ خطاب کا آغاز ہی یَا نِساءالنبی کے الفاظ سے کیا گیا ہے اور ما قبل و ما بعد کی پوری تقریر میں وہی مخاطب ہیں۔ علاوہ بریں ’’ اہل البیت‘‘ کا لفظ عربی زبان میں ٹھیک انہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے جن میں ہم ’’ گھر والوں ‘‘ کا لفظ بولتے ہیں ، اور اس کے مفہوم میں آدمی کی بیوی اور اس کے بچے ، دونوں شامل ہوتے ہیں۔ بیوی کو مستثنٰی کر کے ’’ اہل خانہ‘‘ کا لفظ کوئی نہیں بولتا۔ خود قرآن مجید میں بھی اس مقام کے سوا دو مزید مقامات پر یہ لفظ آیا ہے اور دونوں جگہ اس کے مفہوم میں بیوی شامل ، بلکہ مقدم ہے۔ سورۂ ہود میں جب فرشتے حضرت ابراہیمؑ کو بیٹے کی پیدائش کی بشارت دیتے ہیں تو ان کی اہلیہ اسے سُن کر تعجب کا اظہار کرتی ہیں کہ بھلا اس بڑھاپے میں ہمارے ہاں بچہ کیسے ہو گا۔ اس پر فرشتے کہتے ہیں اَتَعْجَبِیْنَ مِنْ اَمْرِاللّٰہِ رِحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ عَلَیْکُمْ اَھْلَ الْبَیْتِ۔ کیا تم اللہ کے امر پر تعجب کرتی ہو؟اِس گھر کے لوگو، تم پر تو اللہ کی رحمت ہے اور اس کی برکتیں ہیں۔‘‘سُورۂ قصص میں جب حضرت موسیٰ ایک شیر خوار بچے کی حیثیت سے فرعون کے گھر میں پہنچتے ہیں اور فرعون کی بیوی کو کسی ایسی انّا کی تلاش ہوتی ہے جس کا دودھ بچہ پی لے تو حضرت موسیٰؑ کی بہن جا کر کہتی ہیں ھَلْ اَدُلُّکُمْ عَلیٰٓاَھْلِ بَیْتٍ یَّکْفُلُوْ نَہٗ لَکُمْ۔ ’’ کیا میں تمہیں ایسے گھر والوں کا بتہ دوں جو تمہارے لیے اس بچے کی پرورش کا ذمّہ لیں ‘‘؟ پس محاورہ، اور قرآن کے استعمالات، اور خود اس آیت کا سیاق و سباق ، ہر چیز اس بات پر قطعی دلالت کرتی ہے کہ بنی صلی اللہ و سلم کے اہلِ بیت میں آپ کی ازواج مطہرات بھی داخل ہیں اور آپ کی اولاد بھی۔ بلکہ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ آیت کا اصل خطاب ازواج سے ہے اور اولاد مفہوم لفظ سے اس میں شامل قرار پاتی ہے۔ اسی بنا پر ابن عباس اور عُروہ بن زبیر اور عکْرمہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں اہل البیت سے مراد ازواج النبی صلی اللہ علیہ و سلم ہیں۔ |