اس رکوع کو چھاپیں

سورة الاحزاب حاشیہ نمبر۵٦

 یعنی وہ محض مان کر رہ جاتے والے بھی نہیں ہیں بلکہ عملاً اطاعت کرنے والے ہیں۔ ان کی یہ حالت نہیں ہے کہ ایمانداری کے ساتھ حق تو اُسی چیز کو مانیں جس کا اللہ اور اس کے رسولؐ نے حکم دیا ہے مگر عملاً اس کی خلاف ورزی کریں ، اور اپنی مخلصانہ رائے میں تو ان سب کاموں کو بُرا ہی سمجھتے رہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول نے منع کیا ہے مگر اپنی عملی زندگی میں ارتکاب انہی کا کرتے چلے جائیں۔

                        رابعًا، اس سے پیروانِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سبق دینا مقصُود ہے کہ وہ اس انحطاط کے گڑھے میں گرنے سے بچیں جس میں پچھلے انبیا کے پیرو گر گئے۔ یہودیوں کی اخلاقی کمزوریوں ، مذہبی غلط فہمیوں اور اعتقادی و عملی گمراہیوں میں سے ایک ایک کی نشان دہی کر کے اس کے بالمقابل دینِ حق کے مقتضیات بیان کیے گئے ہیں تاکہ مسلمان اپنا راستہ صاف دیکھ سکیں اور غلط راہوں سے بچ کر  چلیں۔ اس سلسلے میں یہُود و نصاریٰ پر تنقید کرتے ہوئے قرآن جو کچھ کہتا ہے اس کو پڑھتے وقت مسلمانوں کو نبی صلی  اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث یاد رکھنی چاہیے جس میں آپ ؐ نے فرمایا ہے کہ تم بھی آخر کار پچھلی اُمتوں ہی کی روش پر چل رہو گے حتّٰی کہ  اگر وہ کسی گوہ کے بِل میں گُھسے ہیں، تو تم بھی اسی میں گُھسو گے۔ صحابہ ؓ  نے پُوچھا: یا رسول اللہ ، کیا یہُود و نصاریٰ مراد ہیں؟ آپ ؐ نے فرمایا، اور کون؟ نبی اکرم ؐ کا ارشاد محض ایک تَو بِیخ نہ تھا  بلکہ اللہ کی دی ہوئی بصیرت سے آپ یہ جانتے تھے کہ انبیا کی اُمتوں میں بگاڑ کن کن راستوں سے آیا اور کن کن شکلوں میں ظہُور کرتا رہا ہے۔