اس رکوع کو چھاپیں

سورة الاحزاب حاشیہ نمبر۸۲

 نبی کو’’ گواہ‘‘ بنانے کا مفہوم اپنے اندر بڑی وسعت رکھتا ہے جس میں تین قسم کی شہادتیں شامل ہیں
ایک قولی شہادت ، یعنی یہ کہ اللہ کا دین جن حقائق اور اُصولوں پر مبنی ہے ، نبی ان کی صداقت کا گواہ بن کر کھڑا ہو اور دنیا سے صاف صاف کہہ دے کہ وہی حق ہیں اور ان کے خلاف جو کچھ ہے باطل ہے۔ خدا کی ہستی اور اس کی توحید، ملائکہ کا سجود، وحی کا نزول ، حیات بعد الموت کا وقوع اور جنت و دوزخ کا ظہور خواہ دُنیا کو کیسا ہی عجیب معلوم ہو اور دُنیا ان باتوں کے پیش کرنے والے کا مذاق اُڑائے یا اسے دیوانہ کہے ، مگر نبی کسی کی پروا کیے بغیر اُٹھے اور ہانک پکار کر کہہ دے کہ یہ سب کچھ حقیقت ہے اور گمراہ ہین وہ لوگ جو اسے نہیں مانتے۔ اسی طرح اخلاق اور تہذیب اور تمدن کے جو تصورات اقدار، اصول اور ضابطے خدا نے اس پر منکشف کیے ہیں ،انہیں اگر ساری دُنیا غلط کہتی ہو اور ان کے خلاف چل رہی ہو تب بھی نبی کا کام یہ ہے کہ انہی کو علی الاعلان پیش کرے اور اُن تمام خیالات اور طریقوں کو غلط قرار دے جو ان کے خلاف دُنیا میں رائج ہوں۔ اسی طرح جو کچھ خدا کی شریعت میں حلال ہے نبی اس کو حلال ہی کہے خواہ ساری دُنیا اسے حرام سمجھتی ہو ، اور جو کچھ خدا کی شریعت میں حرام ہے نبی اس کو حرام ہی کہے خواہ ساری دُنیا اسے حلال و طیب قرار دے رہی ہو۔
دوسرے عملی شہادت ، یعنی یہ کہ نبی اپنی پوری زندگی میں اُس مسلک کا عملاً مظاہر کرے جسے دُنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے وہ اُٹھا ہے۔ جس چیز کو وہ بُرائی کہتا ہے اُس کے ہر شائبے سے اس کی زندگی پاک ہو۔ جس چیز کو وہ بھلائی کہتا ہے ، اس کی اپنی سیرت میں وہ پوری شان کے ساتھ جلوہ گر ہو۔ جس چیز کو وہ فرض کہتا ہے اسے ادا کرنے میں وہ سب سے بڑھ کر ہو۔ جس چیز کو وہ گناہ کہتا ہے اس سے بچنے میں کوئی اس کی برابر ی نہ کر سکے۔ جس قانونِ حیات کو وہ خدا کا قانون کہتا ہے اسے نافذ کرنے میں وہ کوئی کسر نہ اُٹھا رکھے۔ اس کا اپنا اخلاق و کردار اس بات پر گواہ ہو کہ وہ اپنی دعوت میں کس قدر سچا اور کتنا مخلص ہے۔ اور اس کی ذات اس کی تعلیم کا ایسا مجسم نمونہ ہو جسے دیکھ کر ہر شخص معلوم کر لے کہ جس دین کی طرف وہ دُنیا کو بُلا رہا ہے وہ کِس معیار کا انسان بنانا چاہتا ہے ، کیا کِردار اُس میں پیدا کرنا چاہتا ہے ، اور کیا نظامِ زندگی اُس سے برپا کرانا چاہتا ہے۔
 تیسرے اُخروی شہادت ، یعنی آخرت میں جب اللہ کی عدالت قائم ہو اس وقت نبی اس امر کی شہادت دے کہ جو پیغام اس کے سپرد کیا گیا تھا وہ اس نے بے کم و کاست لوگوں تک پہنچا دیا اور ان کے سامنے اپنے قول اور عمل سے حق واضح کر دینے میں اس نے کوئی کوتاہی نہیں کی۔ اِسی شہادت پر یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ ماننے والے کس جزا کے ، اور نہ ماننے والے کس سزا کے مستحق ہیں۔
اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو شہادت کے مقام پر کھڑا کر کے اللہ تعا لیٰ نے کتنی بڑی ذمہ داری آپ پر ڈالی تھی اور وہ کیسی عظیم شخصیت ہونی چاہیے جواس مقامِ بلند پر کھڑی ہو سکے۔ ظاہر بات ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے دینِ حق کی قولی اور عملی شہادت پیش کرنے میں ذرہ برابر بھی کوئی کوتاہی نہیں ہوئی ہے ، تبھی تو آخرت میں آپؐ یہ شہادت دے سکیں گے کہ میں نے لوگوں پر حق پوری طرح واضح کر دیا تھا، اور تبھی اللہ کی حجت لوگوں پر قائم ہو گی۔ ورنہ اگر معاذاللہ آپ ہی سے یہاں شہادت ادا کرنے میں کوئی کسر رہ گئی ہو تو نہ آپ آخرت میں اُن پر گواہ ہو سکتے ہیں اور نہ منکرینِ کے خلاف مقدمہ ثابت ہو سکتا ہے۔
بعض لوگوں نے اس شہادت کو یہ معنی پہنا نے کی کو شش کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم آخرت میں لو گوں کے اعمال پر شہادت دیں گے ، اور اس سے وہ یہ استدلال کرتے ہیں کہ حضورؐ تمام اعمال کو دیکھ رہے ہیں ، ورنہ بے دیکھے شہادت کیسے دے سکیں گے۔ لیکن قرآن مجید کی رو سے یہ تاویل قطعاً غلط ہے۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کے لوگوں کے عمال پر قائم کرنے کے لیے تو اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرا ہی انتظام فرما یا ہے۔ اس غرض کے لیے اس کے فرشتے ہر شخص کا نامۂ اعمال تیار کر رہے ہیں (ملاحظہ ہو ق ٓ ، آیات ۱۷۔۱۸اور الکہف۔ آیت ۱۴۹)اور اس کے لیے وہ لو گوں کے اپنے اعضاء سے بھی گواہی لے لے گا (یٰسٓ۶۵۔حم السجدہ ۲۰۔۲۱) رہے انبیاء علیم السلام ، تو ان کا کام بندوں کے اعمال پر گواہی دینا نہیں بلکہ اس بات پر گواہی دینا ہے ک بندوں تک حق پہنچا دیا گیا گیا تھا۔ قرآن صاف فرماتا ہے :
’’یَوْمَ یَجْمَعُ اللّٰہُ الرُّسُلَ فَیَقُوْلُ مَا ذَآ اُجِبْتُمْ قَالُوْالَاعِلْمَ لَنَا اِنَّکَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ۔(المائدہ۔۱۰۹)جس روز اللہ تمام رسولوں کو جمع کرے گا ، کہ تمہاری دعوت کا کیا جواب دیا گیا ، تو وہ کہیں گے کہ ہم کو کچھ خبر نہیں ، تمام غیب کی باتوں کو جاننے والے تو آپ ہی ہیں۔
 اور اسی سلسلے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق قرآن کہتا ہے کہ جب ان سے عیسائیوں کی گمراہی کے متعلق سوال ہو گا تو وہ عرض کریں گے :
وَکُنْتُ عَلَیْھِمْ شَھِیْداًمَّادُمْتُ فَیْھِمْ فَلَمَّا تَوَ فَّیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْھِمْ۔ (المائدہ۔۱۱۷) 
میں جب تک ان کے درمیان تھا اسی وقت تک ان پر گواہ تھا۔ جب آپ نے مجھے اٹھا لیا تو آپ ہی ان پر نگراں تھے۔
یہ آیت اس باب میں بالکل صریح ہیں کہ انبیا ء علیہم السلام اعمالِ خلق کے گواہ نہیں ہوں گے۔ پھر گواہ کس چیز کے ہو نگے ؟ اس کا جواب قرآن اتنی ہی صراحت کے ساتھ     یہ دیتا ہے :
وَکذٰلِکَ جَعَلْنٰٰکُمْ اُمَّتہً وَّ سَطاً لِّتَکُوْنُوْا شھَُدَآئَ عَلیَ النَّاسِ  وَ یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَْکُمْ شَھِیْداً۔ (البقرہ۔۱۴۳)
اور اَے مسلمانو ! اسی طرح ہم نے تم کو ایک امّت وَسَط بنا یا تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہوں۔
وَیَوْمَ نَبْعَثُ  فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ شَھِیْداً عَلَیْھِمْ مِّنْ اَنْفُسِھِمْ وَجِئْنَا بِکَ شَھِیْداً عَلیٰ ھٰٓؤُلَآئِ۔ (النحل۔ ۸۹)
اور جس روز ہم ہر اُمّت میں انہی کے اندر سے ایک گواہ اٹھا کھڑا کریں گے جو اُن پر گواہی دے گا اور ( اے محمدؐ) تمہیں ان لوگوں پر گواہ کی حیثیت سے لائیں گے۔
اس سے معلوم ہوا کہ قیامت کے روز نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی شہادت اپنی نوعیت میں اُس شہادت سے مختلف نہ ہو گی جسے ادا کرنے کے لیے حضورؐ کی اُمّت کو اور ہر اُمّت کو اور ہر اُمّت پر گواہی دینے والے شہداء کو بلایا جائے گا۔ ظاہر ہے کہ اگر یہ شہادت اعمال کی ہو تو ان سب کا بھی حاضر و ناضر ہونا لازم آتا ہے۔ اور اگر یہ گواہ صرف اس امر کی شہادت دینے کے لیے بلائے جائیں گے کہ خلق تک اس کے خالق کا پیغام پہنچ گیا تھا تو لامحالہ حضورؐ بھی اسی غرض کے لیے پیش ہوں گے۔
اسی مضمون کی تائید وہ احادیث بھی کرتی ہیں جن کو بخاری، مسلم۔ ترمذی ، ابن ماجہ امام احمد وغیرہ ہم نے عبداللہ بن مسعود، عبداللہ بن عباس ، ابو اللہ وا ء، انس بن مالک اور بہت سے دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم سے نقل کیا ہے ، جن کا مشترک مضمون یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم قیامت کے روز اپنے بعض اصحاب کو دیکھیں گے کہ وہ لائے جا رہے ہیں ، مگر وہ آپؐ کی طرف آنے کے بجائے دوسرے رُخ پر جا رہے ہوں گے یا دھکیلے جا رہے ہوں گے۔ حضورؐ ان کو دیکھ کر عرض کریں گے کہ خدایا، یہ تو میرے صحابی ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تم نہیں جانتے کہ تمہارے بعد انہوں نے کیا کرتوت کیے ہیں۔ یہ مضمون اتنے صحابہ سے اتنی کثیر سندوں کے ساتھ نقل ہوا ہے کہ اس کی صحت میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں۔ اور اس سے یہ بات صریحاً ثابت ہوتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اپنی اُمّت کے ایک ایک شخص اور اُس کی ایک ایک حرکت کے شاہد قطعاً نہیں ہیں۔ رہی وہ حدیث جس میں یہ ذکر آیا ہے کہ حضورؐ کے سامنے آپؐ کی اُمّت کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں ، تو وہ کسی طرح بھی اِس مضمون سے متعارض نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس کا حاصل صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ حضورؐ کو اُمت کے حالات سے باخبر رکھتا ہے۔ اس کے یہ معنی کب ہیں کہ حضورؐ ہر شخص کے اعمال کا عینی مشاہدہ فرما رہے ہیں۔