اس رکوع کو چھاپیں

سورة الاحزاب حاشیہ نمبر۸۳

 یہاں اس فرق کو ملحوظ رکھیے کہ کسی شخص کا بطور خود ایمان و عملِ صالح پر اچھے انجام کی بشارت دینا اور کفر وبد عملی پر بُرے انجام سے ڈرانا اور بات ہے اور کسی کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبشر و نذیر بنا کر بھیجا جانا بالکل ہی ایک دوسری بات۔جو شخص اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس منصب پر مامور ہو وہ تو اپنی بشارت اور اپنے اِنذار کے پیچھے لازماً ایک اقتدار رکھتا ہے جس کی بناپر اس کی بشارتوں اور اس کی تنبیہوں کو قانونی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے۔ اس کا کسی کام پر بشارت دینا یہ معنی رکھتا ہے کہ جس احکم الحاکمین کی طرف سے وہ بھیجا گیا ہے وہ اس کام کے پسندیدہ اور مستحقِ اجر ہونے کا اعلان کر رہا ہے ، لہٰذا وہ فرض یا واجب یا مستحب ہے اور اس کا کرنے و الا ضرور اجر پائے گا۔ اور اس کا کسی کام کے بُرے انجام کی خبر دینا یہ معنی رکھتا ہے کہ قادر مطلق اس کام سے منع کر رہا ہے لہٰذا وہ ضرور گناہ اور حرام ہے اور یقیناً اس کا مرتکب سزا پائے گا۔ یہ حیثیت کسی غیر مامور کی بشارت اور تنبیہ کو کبھی حاصل نہیں ہو سکتی۔