اس رکوع کو چھاپیں

سورة الاحزاب حاشیہ نمبر۸۸

 پانچویں بیوی کو حضورؐ کے لیے حلال کرنے کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں حضورؐ کو چند مزید اقسام کی عورتوں سے بھی نکاح کی اجازت عطا فرمائی:
۱۔ وہ عورتیں جو اللہ کی عطا کردہ لونڈیوں میں سے آپؐ کی ملکیت میں آئیں۔ اس اجازت کے مطابق حضورؐ نے غزوۂ قُریظہ کے سبایا میں سے حضرت رَیحانہؓ ، غزوۂ بنی المُصْطَلِق کے سبایا میں سے حضرت جُوَیْریہؓ غزوۂ خیبر کے سبایا میں سے حضرت صفیہؓ اور مُقَقَسِ مصر کی بھیجی ہوئی حضرت ماریہ قبطیہؓ کو اپنے لیے مخصوص فرمایا۔ ان میں سے مقدّم الذکر تین کو آپؐ نے آزاد کر کے ان سے نکاح کیا تھا ، لیکن حضرت ماریہؓ سے بربنائے مِلکِ یمین تمتّع فرمایا، ان کے بارے میں یہ ثابت نہیں ہے کہ آپؐ نے ان کو آزاد کر کے ان سے نکاح کیا ہو۔
۲۔ آپؐ کی چچا زاد، ماموں زاد، پھوپھی زاد اور خالہ زاد بہنوں میں سے وہ خواتین جنہوں نے ہجرت میں آپؐ کا ساتھ دیا ہو۔ آیت میں آپؐ کے ساتھ ’’ہجرت کرنے ‘‘ کا جو ذکر آیا ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سفر میں آپؐ کے ساتھ رہی ہوں ، بلکہ یہ تھا کہ وہ بھی اسلام کی خاطر راہِ خدا میں ہجرت کر چکی ہوں۔ حضورؐ کو اختیار دیا گیا کہ اِن رشتہ دار مہاجر خواتین میں سے بھی آپؐ جس سے چاہیں نکاح کر سکتے ہیں۔ چنانچہ اس اجازت کے مطابق آپؐ نے ۷ ھ میں حضرت اُمّ حبیبہؓ سے نکاح فرمایا۔ (ضمناً اس آیت میں یہ صراحت بھی ہے کہ چچا ، ماموں ، پھوپھی اور خالہ کی بیٹیاں ایک مسلمان کے لیے حلال ہیں۔ اس معاملہ میں اسلامی شریعت عیسائی اور یہودی ، دونوں مذہبوں سے مختلف ہے۔ عیسائیوں کے ہاں کسی ایسی عورت سے نکاح نہیں ہو سکتا جس سے سات پشت تک مرد کا نسب ملتا ہو۔ اور یہودیوں کے ہاں سگی بھانجی اور بھتیجی تک سے نکاح جائز ہے )۔
۳۔ وہ مومن عورت جو اپنے آپ کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے ہبہ کرے ،یعنی بلا مہر آپ کو حضورؐ کے نکاح میں دینے کے لیے تیار ہو اور حضورؐ اسے قبول کرنا پسند فرمائیں۔ اس اجازت کی بنا پر آپؐ نے شوال ۷ ھ میں حضرت میمونہؓ کو اپنی زوجیت میں لیا۔ لیکن آپؐ نے یہ پسند نہ کیا کہ مہر کے بغیر اُن کے ہبہ سے فائدہ اُٹھائیں۔ اس لیے آپؐ نے ان کی کسی خواہش اور مطالبہ کے بغیر ان کو مہر عطا فرمایا۔ بعض مفسرین یہ کہتے ہیں کہ حضورؐ کے نکاح میں کوئی موہوبہ بیوی نہ تھیں۔ مگر اس کا مطلب دراصل یہ ہے کہ آپؐ نے ہبہ کرنے والی بیوی کو بھی مہر دیے بغیر نہ رکھا۔