اس رکوع کو چھاپیں

سورة الاحزاب حاشیہ نمبر۹۰

یہ وہ مصلحت ہے جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو عام قاعدے سے مستثنیٰ فرمایا۔’’ تنگی نہ رہے ‘‘ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نعوذ باللہ آپؐ کی خواہشات نفسانی بہت بڑھی ہوئی تھیں اس لیے آپؐکو بہت بیویاں کرنے کی اجازت دے دی گئی تاکہ آپؐ صرف چار بیویوں تک محدود رہنے میں تنگی محسوس نہ فرمائیں۔ اس فقرے کا یہ مطلب صرف وہی شخص لے سکتا ہے جو تعصّب میں اندھا ہو کر اس بات کو بھول جائے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے ۲۵ سال کی عمر میں ایک ایسی خاتون سے شادی کی تھی جن کی عمر اُس وقت ۴۰ سال تھی ، اور پوری ۲۵برس تک آپ اُن کے ساتھ نہایت خوشگوار ازدواجی زندگی بسر کرتے رہے۔ پھر جب اُن کا انتقال ہو گیا تو آپ نے ایک اور سن رسیدہ خاتون حضرت سَودہؓ سے نکاح کیا اور پورے چار سال تک تنہا وہی آپ کی بیوی رہیں۔ اب آخر کون صاحبِ عقل اور ایمان دار آدمی یہ تصور کر سکتا ہے کہ ۵۳ سال کی عمر سے گزر جانے کے بعد یکایک حضورؐ کی خواہشات نفسانی بڑھتی چلی گئیں اور آپ کو زیادہ سے زیادہ بیویوں کی ضرورت پیش آنے لگی۔ دراصل ’’ تنگی نہ رہنے ‘‘ کا مطلب سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی ایک طرف تو اُس کارِ عظیم کو نگاہ میں رکھے جس کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے اوپر ڈالی تھی اور دوسری طرف اُن حالات کو سمجھے جن میں یہ کار عظیم انجام دینے کے لیے آپ کو مامور کیا گیا تھا۔ تعصب سے ذہن کو پاک کر کے جو شخص بھی ان دونوں حقیقتوں کو سمجھ لے گا وہ بخوبی جان لے گا کہ بیویوں کے معاملے میں آپؐ کو کھُلی اجازت دینا کیوں ضروری تھا ، اور چار کی قید میں آپ کے لیے کیا ’’تنگی‘‘ تھی۔
حضورؐ کے سپرد جو کام کیا گیا تھا وہ یہ تھا کہ آپؐ ایک اَن گھڑ قوم کو جو اسلامی نقطۂ نظر ہی سے نہیں بلکہ عام تہذیب و تمدّن کے نقطۂ نظر سے بھی نا تراشیدہ تھی، ہر شعبۂ زندگی میں تعلیم و تربیت دے کر ایک اعلیٰ درجہ کی مہذّب و شائستہ اور پاکیزہ قوم بنائیں۔ اس غرض کے لیے صرف مردوں کو تربیت دینا کافی نہ تھا، بلکہ عورتوں کی تربیت بھی اتنی ہی ضروری تھی۔ مگر جو اُصولِ تمدّن و تہذیب سکھانے کے لیے آپؐ مامور کیے گئے تھے اُن کی رُو سے مردوں اور عورتوں کا آزادانہ اختلاط ممنوع تھا اور اس قاعدے کو توڑے بغیر آپؐ کے لیے عورتوں کو براہ راست خود تربیت دینا ممکن نہ تھا۔ اس بنا پر عورتوں میں کام کرنے کی صرف یہی ایک صورت آپؐ کے لیے ممکن تھی کہ مختلف عمروں اور ذہنی صلاحیتوں کی متعدّد خواتین سے آپؐ نکاح کریں ، ان کو براہِ راست خود تعلیم و تربیت دیکر اپنی مدد کے لیے تیار کریں ، اور پھر اُن سے شہری اور بدوی اور جوان اور بوڑھی، ہر قسم کی عورتوں کو دین سکھانے اور اخلاق و تہذیب کے نئے اصول سمجھانے کا کام لیں۔
اس کے علاوہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے سُپرد یہ خدمت بھی کی گئی تھی کہ پرانے جاہلی نظامِ زندگی کو ختم کر کے اس کی جگہ اسلامی نظامِ زندگی عملاً قائم کر دیں۔ اس خدمت کی انجام دہی میں جاہلی نظام کے علمبرداروں سے جنگ ناگزیر تھی۔ اور یہ کشمکش ایک ایسے ملک میں پیش آ رہی تھی یہاں قبائلی طرزِ زِندگی اپنی مخصوص روایات کے ساتھ رائج تھا۔ اِن حالات میں دوسری تدابیر کے ساتھ آپؐ کے لیے یہ بھی ضروری تھا کہ آپؐ مختلف خاندانوں میں نکاح کر کے بہت سی دوستیوں کو پختہ اور بہت سی عداوتوں کو ختم کر دیں۔ چنانچہ جن خواتین سے آپؐ نے شادیاں کیں ان کے ذاتی اوصاف کے علاوہ ان کے انتخاب میں یہ مصلحت بھی کم و بیش شامل تھی۔ حضرت عائشہ ؓ اور حضرت حفصہؓ کے ساتھ نکاح کر کے آپؐ نے حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمرؓ کے ساتھ اپنے تعلقات کو اور زیادہ گہرا اور مستحکم کر لیا۔ حضرت امّ سلمہؓ اُس خاندان کی بیٹی تھیں جس سے ابوجہل اور خالد بن ولیدؓ کا تعلق تھا۔ اور حضرت اُم حبیبہؓ ابو سفیان کی بیٹی تھیں۔ان شادیوں نے بہت بڑی حد تک ان خاندان کی دشمنی کا زور توڑ دیا ، بلکہ اُم حبیبہؓ کے ساتھ حضورؐ کا نکاح ہونے کے بعد تو ابو سفیان پھر کبھی حضورؐ کے مقابلے پر نہ آیا۔ حضرت صفیہ ؓ، جُویریہ ؓ، اور رَیحانہؓ یہودی خاندانوں سے تھیں۔ انہیں آزاد کر کے جب حضورؐ نے ان سے نکاح کیے تو آپؐ کے خلاف یہودیوں کی سرگرمیاں ٹھنڈی پڑ گئیں۔ کیونکہ اُس زمانے کی عربی روایات کے مطابق جس شخص سے کسی قبیلے کی بیٹی بیاہی جاتی وہ صرف لڑکی کے خاندان ہی کا نہیں بلکہ پُورے قبیلے کا داماد سمجھا جاتا تھا اور داماد سے لڑنا بڑے عار کی بات تھی۔
معاشرے کی عملی اصلاح اور اس کی جاہلانہ رسوم کو توڑنا آپؐ کے فرائضِ منصبی میں شامل تھا۔ چنانچہ ایک نکاح آپؐ کو اس مقصد کے لیے بھی کرنا پڑا ، جیسا کہ اسی سور ۂ احزاب میں مفصل بیان ہو چکا ہے۔
یہ مصلحتیں اس بات کی مقتضی تھیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے نکاح کے معاملے میں کوئی تنگی باقی نہ رکھی جائے۔ تاکہ جو کارِ عظیم آپؐ کے سپرد کیا گیا تھا اس کی ضروریات کے لحاظ سے آپؐ جتنے نکاح کرنا چاہیں کر لیں۔
 اس بین سے ان لوگوں کے خیال کی غلطی بھی واضح ہو جاتی ہے جو سمجھتے ہیں کہ تعدّد ازواج صرف چند شخصی ضرورتوں کی خاطر ہی جائز ہے اور ان کے ماسوا کوئی غرض ایسی نہیں ہو سکتی جس کے لیے یہ جائز ہو۔ ظاہر بات ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے جو ایک سے زائد نکاح کیے ان کی وجہ یہ نہ تھی کہ بیوی بیمار تھی ، یا بانجھ تھی ، یا اولاد نرینہ تھی ، یا کچھ یتیموں کی پر ورش کا مسئلہ در پیش تھا۔ ان محدود شخصی ضروریات کے بغیر آپؐ نے تمام نکاح یا تو تبلیغی و تعلیمی ضروریات کے لیے کیے ،یا سیا سی و اجتماعی مقاصد کے لیے۔ سوال یہ ہے کہ جب اللہ نے خود تعدّد ازواج کو ان چند گنی چنی مخصوص اغراض تک ، جن کا آج نام لیا جا رہا ہے ، محدود نہیں رکھا اور اللہ کے رسول نے ان کے سوا بہت سے دوسرے مقاصد کے لیے متعدّد نکاح کیے تو کوئی دوسرا شخص کیا حق رکھتا یہ کہ قانون میں اپنی طرف سے چند قیود تجویز کرے اور او پر سے دعویٰ یہ کرے کہ یہ حد بندیاں وہ شریعت کے مطابق کر رہا ہے۔ در اصل ان ساری حد بندیوں کی جڑ یہ مغربی تخیّل ہے کہ تعدّدِ  ازواج بجائے خود ایک برائی ہے۔ اسی تخیّل کی بنا پر یہ نظریہ پیدا ہوا ہے کہ یہ فعل حرام اگر کبھی حلال ہو بھی سکتا ہے تو صرف شدید ناگزیر ضروریات کے لیے ہو سکتا ہے اب اس درآمد شدہ تخیّل پر اسلام کا جعلی ٹھپہ لگانے کی چاہے کتنی ہی کوشش کی جائے ، قرآن و سنت اور پوری امتِ مسلمہ کا لٹریچر اس سے قطعاً نا آشنا ہے۔