اس رکوع کو چھاپیں

سورة الاحزاب حاشیہ نمبر۹١

 اس آیت سے مقصود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو خانگی زندگی کی الجھنوں سے نجات دلانا تھا تاکہ آپؐ پورے سکون کے ساتھ اپنا کام کر سکیں۔ جب اللہ تعلی نے صاف الفاظ میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو پورے اختیارات دے دیے کہ ازواجِ مطہرات میں سے جس کے ساتھ جو بر تاؤ چاہیں کریں تو اس بات کا کو ئی امکان نہ رہا کہ یہ مو من خواتین آپؐ کو کسی طرح پریشان کرتیں یا آپس میں مسابقت اور رقابت کے جھگڑے پیدا کر کے آپ کے لیے الجھنیں پیدا کرتیں۔ لیکن اللہ تعلی سے یہ اختیار پا لینے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے تمام ازواج کے در میان پورا پورا عدل فرما یا ، کسی کو کسی پر ترجیح نہ دی ، او ربا قاعدہ باری مقرر کر کے آپؐ سب کے ہاں تشریف لے جاتے رہے۔ محدّثین میں سے صرف ابو رزین یہ بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم صرف چار بیویوں (حضرت عائشہؓ ، حضرت حفصہؓ ،  حضرت زنیب ؓ اور حضرت ام سلمہ ؓ ) کو باریوں کی تقسیم میں شامل کیا تھا اور باقی ازواج کے لیے کوئی باری مقرر نہ تھی۔ لیکن دوسرے تمام محدثین و مفسرین اس کی تردید کرتے ہیں اور نہایت قوی روایت سے اس امر کا ثبوت پیش ہیں کہ اس اختیار کے بعد بھی حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاں باری باری سے جاتے تھے اور سب سے یکساں برتاؤ کرتے تھے۔ بخاری، مسلم ، نسائی اور ابو داؤد وغیرہم حضرت عائشہ ؓ کا قول نقل کرتے ہیں کہ اس آیت کے نزول کے بعد بھی حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا طریقہ یہی رہا کہ آپؐ ہم میں سے کسی بیوی کی باری کے دن دوسری بیوی کے ہاں جاتے تو اس سے اجازت لے کر جاتے تھے۔‘‘ابو بکر جصاص عروہ بن زبیر کی روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ ؓ نے ان سے فرمایا رسول صلی اللہ علیہ و سلم باریوں کی تقسیم میں ہم میں سے کسی کو ترجیح نہ دیتے تھے۔ اگر چہ کم ہی ایسا ہو تا تھا کہ آپؐ کسی روز اپنی سب بیویوں کے ہاں نہ جاتے ہوں ، مگر جس بیوی کی باری کا دن ہو تا تھا اس کے سوا کسی دوسری بیوی کو چھوتے تک نہ تھے اور یہ روایت بھی حضرت عائشہ ؓ ہی کی ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم اپنی آخری بیماری میں مبتلا ہوئے اور نقل و حرکت آپؐ لیے مشکل ہو گئی تو آپؐ نے سب بیویوں سے اجازت طلب کی کہ مجھے عائشہ ؓ  کے ہاں رہنے دو ، اور جب سب نے اجازت دے دی تب آپؐ نے آخری زمانہ حضرت عائشہ ؓ کے ہاں گزارا۔ ابن ابی حاتم امام زہری کا قول نقل کرتے ہیں کہ نبی  صلی اللہ علیہ و سلم کا کسی بیوی کو باری سے محروم کرنا ثابت نہیں ہے اس سے صرف حضرت سودہ ؓ مستثنیٰ ہیں جنہوں نے خود اپنی باری بخوشی حضرت عائشہ ؓ کو بخش دی تھی ، کیوں کہ وہ بہت سن رسیدہ ہو چکی تھیں۔
اس مقام پر کسی کے دِل میں یہ شبہ نہ رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے معاذاللہ اس آیت میں اپنے نبی کے ساتھ کوئی بے جا رعایت کی تھی اور ازواجِ مطہرات کے ساتھ حق تلفی کا معاملہ فرمایا تھا۔ دراصل جن عظیم مصالح کی خاطر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو بیویوں کی تعداد کے معاملہ میں عام قاعدے وے مستثنیٰ کیا گیا تھا،انہی مصالح کا تقاضہ یہ بھی تھا کہ آپؐ کو خانگی زندگی کا سکون بہم پہنچایا جائے اور اُن اسباب کا سدّ باب کیا جاۓ جو آپؐ کے لیے پریشان خاطری کے موجب ہو سکتے ہوں ازواجِ مطہرات کے لیے یہ ایک بہت بڑا شرف تھا کہ انہیں نبی صلی اللہ علیہ و سلم جیسی بزرگ ترین ہستی کی زوجیت حاصل ہوئی اور اس کی بدولت اُن کو یہ موقع نصیب ہوا کہ دعوت و اصلاح کے اُس عظیم الشان کام میں آپؐ کی رفیق کار بنیں جو رہتی دُنیا تک انسانیت کی فلاح کا ذریعہ بننے والا تھا۔ اس مقصد کے لیے جس طرح نبی صلی اللہ علیہ و سلم غیر معمولی ایثار و قربانی سے کام لے رہے تھے اور تمام صحابۂ کرام اپنی حدِ استطاعت تک قربانیاں کر رہے تھی اسی طرح ازواج مطہرات کا بھی یہ فرض تھا کہ ایثار سے کام لیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کی اس فیصلے کو تمام ازواج رسولؐ نے بخوشی قبول کیا۔