اس رکوع کو چھاپیں

سورة سبا حاشیہ نمبر١۲

 یہ ان کی بات کا دوسرا جواب ہے۔ اس جواب کو سمجھنے کے لیے یہ حقیقت نگاہ میں رہنی چاہیے کہ کفار قریش جن وجوہ سے زندگی بعد موت کا انکار  کرتے تھے ان میں تین چیزیں سب سے زیادہ نمایاں تھیں۔ ایک یہ کہ وہ خدا کے محاسبے اور باز پرس کو نہیں ماننا چاہتے تھے کیونکہ اسے مان لینے کے بعد دنیا میں من مانی کرنے کی آزادی ان سے چھن جاتی تھی۔ دوسرے یہ کہ وہ قیامت کے وقوع اور نظام عالم کے درہم برہم ہو جانے اور پھر سے ایک نئی کائنات بننے کو ناقابل تصور سمجھتے تھے۔ تیسرے یہ کہ جن لوگوں کو مری ہوے سینکڑوں ہزاروں برس گزر چکے ہو اور جن کی ہڈیاں تک ریزہ ریزہ ہو کر  زمین، ہوا اور پانے میں پراگندہ ہو چکی ہوں ان کا دوبارہ جسم و جان کے ساتھ جی اٹھنا ان کے نزدیک بالکل بعید ا امکان تھا۔ اوپر کا جواب ان تینوں پہلوؤں پر حاوی ہے، اور مزید براں اس میں ایک سخت تنبیہ بھی مضمر ہے۔ ان مختصر  سے فقروں میں جو مضمون بیان کیا گیا ہے اس کی تفضیل یہ ہے۔
                       1۔ اس زمین و آسمان کو اگر کبھی تم نے آنکھیں کھول کر دیکھا ہوتا تو تمہیں نظر آتا کہ یہ کوئی کھلونا نہیں ہے، اور نہ یہ نظام اتفاقاً بن گیا ہے، اس کائنات کی ہر چیز اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ اسے ایک قادر مطلق نے کمال درجہ حکمت کے ساتھ بنایا ہے۔ ایسے ایک حکیمانہ نظام میں یہ تصور کرنا کہ یہاں کسی کو عقل و تمیز و اختیارات عطا کرنے کے بعد اسے غیر ذمہ دار اور غیر جواب دہ چھوڑ ا جا سکتا ہے، سراسر ایک لغو بات  ہے۔                                                                                                
  2۔ اس نظام کو جو شخص بھی دیدہ بینا کے ساتھ دیکھے گا اسے معلوم ہو جائے گا کہ قیامت کا آ جانا کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔ زمین اور آسمان جن بندشوں پر قائم ہیں ان میں ایک ذرا سا الٹ پھیر بھی ہو جائے تو آناً فاناً قیامت برپا ہو سکتی ہے۔ اور یہی نظام اس بات پر بھی گواہ ہے کہ جس نے آج یہ دنیا بنا رکھی ہے وہ ایک دوسری دنیا بھر بنا سکتا ہے۔ اس کے  لیے ایسا کرنا مشکل ہوتا تو یہی دنیا کیسے بن کھڑی ہوتی۔
 3۔ تم نے آخر خالق ارض و سما کو کیا سمجھ رکھا ہے کہ مرے ہوے انسانوں کو دوبارہ پیدا کیے جانے کو اسکی قدرت سے باہر خیال کر رہے ہو، جو لوگ مرتے ہیں ان کے جسم پارہ پارہ  ہو کر خواہ کتنے ہی منتشر ہو جائیں، رہتے تواسی زمین و آسمان کے حدود میں ہیں۔ اس سے کہیں باہر تو نہیں چلے جاتی۔ پھر جس خدا کے یہ زمین و آسمان ہیں اس کیلیے کیا مشکل ہے کہ مٹی اور  پانی اور ہوا میں جو چیز جہاں بھی ہے اسے وہاں سے نکال لائے۔ تمہارے جسم میں ان جو کچھ موجود ہے وہ بھی اسی  کا جمع کیا ہوا ہے اور اسی مٹی، ہوا اور پانی میں سے نکال لایا گیا ہے۔ ان اجزا کی فراہمی اگر آج ممکن ہے تو کل کیوں غیر ممکن ہو جائے گی۔ ان تینوں دلیلوں کے ساتھ اس کلام میں یہ تنبیہ بھی پوشیدہ ہے کہ تم ہر طرف سے خدا کی خدائی میں گھرے ہوئے ہو۔ جہاں بھی جاؤ گے یہی کائنات تم پر محیط ہو گی۔ خدا کے مقابلے میں کوئی جائے پناہ تم نہیں پا سکتے اور خدا کی قدرت کا حال یہ ہے کہ جب وہ چاہے تمہارے قدموں کے نیچے سے یا سر کے اوپر سے جو بلا چاہے تم پر نازل کر سکتا ہے۔ جس زمین کو آغوش مادر کی طرح تم اپنے لیے جائے سکون پاتے ہو اور اطمینان سے اس پر گھر بنائے بیٹھے ہو تمھیں کچھ پتہ نہیں کہ اس کی سطح کے نیچے کیا قوتیں کام کر رہی ہیں اور کب وہ کوئی زلزلے لا کر اسی زمین کو تمہارے لیے مرقد بنا دیتی ہیں۔ جس آسمان کے نیچے تم اس اطمینان کے ساتھ چل پھر رہے ہو گویا کہ یہ تمہارے گھر کی چھت ہے، تمہیں کیا معلوم کہ اسی آسمان سے کب کوئی بجلی گر پڑتی ہے، یا ہلاکت خیز بارش ہوتی ہے، یا اور کوئی نا گہانی آفت آ جاتی ہے۔ اس حالت میں تمہاری خدا سے یہ بے خوفی اور فکر عاقبت سے یہ غفلت اور ایک خیر خواہ کی نصیحت کے  مقابلے میں یہ یَا وَہ گوئی بجز اس کے اور کیا معنی رکھتی ہے کہ تم اپنی شامت ہی کو دعوت دے رہے ہو۔