اس رکوع کو چھاپیں

سورة سبا حاشیہ نمبر۲۵

         سلسلۂ بیان کو سمجھنے کے لیے رکوع اول کے مضمون کو نگاہ ہیں رکھنا ضروری ہے۔ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ کفار عرب آخرت کی آمد کو بعید از عقل سمجھتے تھے۔ اور جو رسولؐ اس عقیدے کو پیش کر رہا  تھا اس کے متعلق کھلم کھلا یہ کہہ رہے تھے کہ ایسی عجیب باتیں کرنے والا آدمی یا تو مجنون ہو سکتا ہے، یا پھر وہ جان بوجھ کر افترا پردازی  کر رہا ہے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالی نے پہلے چند عقل دلائل ارشاد فرمائے جن کی تشریح ہم حواشی نمبر 7۔8۔12 میں کر چکے ہیں۔ اس کے بعد رکوع دوم میں حضرت داؤد و سلیمانؑ کا قصّہ اور پھر سبا کا قصہ ایک تاریخی دلیل کے طور پر بیان کیا گیا ہے جس سے مقصود یہ حقیقت ذہن نشین کرنا ہے کہ روئے زمین پر خود نوع انسانی کی اپنی سرگزشت قانونِ مکافات کی شہادت دے رہی ہے۔ انسان اپنی تاریخ کو غور سے دیکھے تو اسے معلوم ہو سکتا ہے کہ یہ دنیا کوئی اندھیر نگری نہیں ہے جس کا سارا کارخانہ اندھا دھند چل رہا ہو بلکہ اس پر ایک سمیع و بصیر خدا فرمانروائی  کر رہا ہے جو شکر کی راہ اختیار کرنے والوں کے  ساتھ ایک معاملہ کرتا ہے اور  ناشکری و کافر نعمتی کی راہ چلنے والوں کے ساتھ بالکل ہی ایک دوسرا معاملہ فرماتا ہے۔ کوئی سبق لینا چاہے تو اسی تاریخ سے یہ سبق لے سکتا ہے کہ جس خدا کی سلطنت کا یہ مزاج ہے اس کی خدائی  میں نیکی اور بدی کا انجام کبھی یکساں نہیں ہو سکتا۔ اس کے عدل و انصاف کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ ایک وقت ایسا آئے  جب نیکی کا پورا اجر اور بدی کا پورا بدلہ دیا جائے۔