اس رکوع کو چھاپیں

سورة سبا حاشیہ نمبر۴۲

 سوال اور جواب کے درمیان ایک لطیف خلا ہے۔ مخاطب مشرکین تھے جو صرف یہی نہیں کہ اللہ کی ہستی کے منکر نہ تھے بلکہ یہ بھی جانتے تھے کہ رزق کی کنجیاں اسی کے ہاتھ میں ہیں۔ مگر اس کے باوجود وہ دوسروں کو خدائی میں شریک ٹھیراتے تھے۔ اب جو ان کے سامنے یہ سوال پیش کیا گیا کہ بتاؤ کون تمہیں آسمان و زمین سے رزق دیتا ہے، تو وہ مشکل میں پڑ گئے۔ اللہ کے سوا کسی کا نام لیتے ہیں تو خود اپنے اور اپنی قوم کے عقیدے کے خلاف بات کہتے ہیں۔ ہٹ دھرمی کی بنا پر ایسی بات کہہ بھی دیں تو ڈرتے ہیں کہ خود اپنی قوم کے لوگ ہی اس کی تردید کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ اور اگر تسلیم کر لیتے ہیں کہ اللہ ہی رزق دینے والا ہے تو فوراً دوسرا سوال یہ سامنے آ جاتا ہے کہ پھر یہ دوسرے کس مرض کی دوا ہیں جنہیں تم نے خدا بنا رکھا ہے؟ رزق تو دے اللہ، اور ہو جے جائیں یہ، آخر تمہاری عقل کہاں ماری گئی ہے کہ اتنی بات بھی نہیں سمجھتے۔ اس دو گونہ مشکل میں پڑ کر وہ دم بخود رہ جاتے ہیں۔ نہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ ہی رزق دینے والا ہے۔ نہ یہ کہتے ہیں کہ کوئی دوسرا معبود رازق ہے۔ پوچھنی والا جب دیکھتا ہے کہ یہ لوگ کچھ نہیں بولتے، تو وہ خود اپنے سوال کا جواب دیتا ہے کہ ’’ اللہ‘‘۔