اس رکوع کو چھاپیں

سورة سبا حاشیہ نمبر٦۳

 اس فقرے میں جِن سے مراد شیاطینِ جِن ہیں۔ فرشتوں کے اس جواب کا مطلب  یہ ہے کہ بظاہر تو یہ ہمارے نام لے کر، اور اپنے تخیلات کے مطابق ہماری صورتیں بنا کر گویا ہماری عبادت کرتے تھے، لیکن دراصل یہ ہماری نہیں بلکہ شیا طین کی بندگی کر رہے تھے، کیونکہ شیاطین ہی نے ان کو یہ راستہ دکھایا تھا کہ خدا کو چھوڑ کر دوسروں کو اپنا حاجت روا سمجھو اور ان کے آگے نذر و نیاز پیش کیا کرو۔
یہ آیت صریح طور پر ان لوگوں کے خیال کی غلطی واضح کر دیتی ہے جو ’’جن‘‘ کو پہاڑی علاقے علاقے کے باشندوں یا دہقانوں اور صحرائیوں کے معنی میں لیتے ہیں۔ کیا کوئی  صاحب عقل آدمی اس آیت کو پڑھ کر یہ تصوّر کر سکتا ہے کہ لوگ کوہستانی اور  صحرائی اور دیہاتی آدمیوں کی عبادت کیا کرتے تھے اور انہی پر ایمان لائے ہوئے تھے            اس آیت سے عبادت کے بھی ایک دوسرے مفہوم پر روشنی پڑتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عبادت صرف پرستش اور ہو جا پاٹ ہی کا نام نہیں ہے بلکہ کسی کی حکم پر چلنا اور اس کی بے چون و چرا اطاعت کرنا بھی عبادت ہی ہے۔ حتٰی کہ اگر آدمی کسی پر لعنت بھیجتا ہو(جیسا کہ شیطان پر بھیجتا ہے ) اور پھر بھی پیروی اسی کے طریقے کیکیے جا رہا ہو تب بھی وہ اس کی عبادت کا مرتکب ہے۔ اس کی دوسری مثالوں کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول، ص 398۔ 484۔ جلد دوم، ص 189۔190۔ جلد سوم،ص 69۔ 656۔