اس رکوع کو چھاپیں

سورة سبا حاشیہ نمبر۷١

 اس زمانے کے بعض لوگوں نے اس آیت سے یہ استدلال کیا ہے کہ اس کی رو سے بنی صلی اللہ علیہ و سلم گمراہ ہو سکتے تھے، بلکہ ہو جایا کرتے تھے، اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے خود حضورؐ ہی کی زبان سے یہ کہلوا دیا کہ اگر میں گمراہ ہوتا ہوں تو اپنی گمراہی کا خود ذمہ دار ہوتا ہوں اور راہ راست پر میں بس اس وقت ہوتا ہوں جب میرا رب مجھ پر وحی (یعنی آیات قرآنی ) نازل کرتا ہے۔ اس غلط تاویل سے یہ ظالم گویا یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ حضورؐ کی زندگی معاذ اللہ ہدایت و ضلالت کا مجموعہ تھی اور اللہ تعالیٰ نے کفار کے سامنے حضورؐ سے یہ اعتراف اس لیے کروا رہا تھا کہ کہیں کوئی شخص آپؐ کو بالکل ہی راہ راست پر سمجھ کر آپ کی مکمل پیروی نہ اختیار کر بیٹھے حالانکہ جو شخص بھی سلسلہ کلام پر غور کرے گا وہ جان لے گا کہ یہاں ’’ اگر میں گمراہ ہو گیا ہوں‘‘ کے الفاظ اس معنی میں نہیں کہے گئے ہیں کہ معاذ اللہ حضورؐ فی الواقع گمراہ ہو جاتے تھے، بلکہ پوری بات اس معنی میں کہی گئی ہے کہ ’’ اگر میں گمراہ ہو گیا ہوں، جیسا کہ تم مجھ پر الزام لگا رہے ہو، اور میرا یہ نبوت کا دعویٰ اور میری یہ دعوت توحید اسی گمراہی کا نتیجہ ہے جیسا کہ تم گمان کر رہے ہو، تو میری گمراہی کا وبال مجھ پر ہی پڑے گا، اس کی ذمہ داری میں تم نہ پکڑے جاؤ گے۔ لیکن اگر میں ہدایت پر ہوں، جیسا کہ در حقیقت ہوں، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھ پر میرے رب کی طرف سے وحی آتی ہے جس کے ذریعہ سے مجھے راہ راست کا علم حاصل ہو گیا ہے۔ میرا رب قریب ہی موجود ہے اور سب کچھ سن رہا ہے، اسے معلوم ہے کہ میں گمراہ ہوں یا اس کی طرف سے ہدایت یافتہ۔‘‘