اس رکوع کو چھاپیں

سورة فاطر حاشیہ نمبر۲١

یہ ہے عزت حاصل کرنے کا اصل ذریعہ۔ اللہ کے ہاں جھوٹے اور خبیث اور مفسدانہ اقوال کو کبھی عروج نصیب نہیں ہوتا۔ اس کے ہاں تو صرف وہ قول عروج پاتا ہے  جو سچا ہو، پاکیزہ ہو، حقیقت پر مبنی ہو، اور جس میں نیک نیتی کے ساتھ ایک صالح عقیدے اور ایک صحیح طرز فکر کی ترجمانی کی گئی ہو۔ پھر جو چیز ایک پاکیزہ کلمے کو عروج کی طرف لے جاتی ہے وہ قول کے مطابق عمل ہے۔ جہاں قول بڑا پاکیزہ ہو مگر عمل اس کے خلاف ہو وہاں قول کی پاکیزگی ٹھٹھر کر رہ جاتی ہے۔ محض زبان کے پھاگ اُڑانے سے کوئی کلمہ بلند نہیں ہوتا۔ اسے عروج پر پہنچانے کے لیے عمل صالح کا زور درکار ہوتا ہے۔
اس مقام پر یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ قرآن  مجید قول صالح اور عمل صالح کو لازم و ملزوم کی حیثیت سے پیش کرتا ہے۔ کوئی عمل محض اپنی ظاہری شکل کے اعتبار سے صالح نہیں ہو سکتا جب تک اس کی پشت پر عقیدہ صالحہ نہ ہو۔ اور کوئی عقیدہ صالحہ ایسی حالت میں معتبر نہیں ہو سکتا جب تک کہ آدمی کا عمل اس کی تائید و تصدیق نہ کر رہا ہو۔ ایک شخص اگر زبان سے کہتا ہے کہ میں صرف اللہ وحدہٗ لا شریک کو معبود مانتا ہوں، مگر عملاً وہ غیر اللہ کی عبادت کرتا ہے تو اس کا یہ عمل اس کے قول کی تکذیب کر دیتا ہے۔ ایک شخص زبان سے کہتا ہے کہ میں شراب کو حرام مانتا ہوں، مگر عملاً وہ شراب پیتا ہے تو اس کا محض قول نہ خلق کی نگاہ میں مقبول ہو سکتا ہے نہ خدا کے ہاں اسے کوئی قبولیت نصیب ہو سکتی ہے۔