اس رکوع کو چھاپیں

سورة فاطر حاشیہ نمبر۴۲

 ان تمثیلات میں مومن اور کافر کے حال اور مستقبل کا فرق بتایا گیا ہے۔ ایک وہ شخص ہے جو حقائق سے آنکھیں بند کیے ہوئے ہے اور کچھ نہیں دیکھتا کہ کائنات کا سارا نظام اور خود اس کا اپنا وجود صداقت کی طرف اشارے کر رہا ہے۔ دوسرا وہ شخص ہے جس کی آنکھیں کھلی ہیں اور وہ صاف دیکھ رہا ہے کہ اس کے باہر اور اندر کی ہر چیز خدا کی توحید اور اس کے حضور انسان کی جوابدہی پر گواہی دے رہی ہے۔ ایک وہ شخص ہے جو جاہلانہ اوہام اور مفروضات  و قیاسات کی تاریکیوں میں بھٹک رہا ہے اور پیغمبر کی روشن کی ہوئی شمع کے قریب بھی پھٹکنے کے لیے تیا ر نہیں۔ دوسرا  وہ شخص ہے جس کی آنکھیں کھلی ہیں اور پیغمبر کی پھیلائی ہوئی روشنی سامنے آتے ہی اس پر یہ بات بالکل عیاں ہو گئی  ہے کہ مشرکین اور کفار اور دہریے جن راہوں پر چل رہے ہیں وہ سب تباہی کی طرف جاتی ہیں اور فلاح کی راہ صرف وہ ہے جو خدا کے رسول نے دکھائی ہے۔ اب آخر یہ کیونکر ممکن ہے کہ دنیا میں ان دونوں کا رویہ یکساں ہو اور دونوں ایک ساتھ ایک ہی راہ پر چل سکیں؟ اور آخر یہ بھی کیسے ممکن ہے کہ دونوں کا انجام یکساں ہو اور دونوں ہی مر کر فنا ہو جائیں، نہ ایک کو بد راہی کی سزا ملے، نہ دوسرا راست روی کا کوئی انعام پائے؟ ’’ ٹھنڈی چھاؤں اور دھوپ کی تپش ایک جیسی نہیں ہے ‘‘ کا اشارہ اسی انجام کی طرف ہے کہ ایک اللہ کے سایہ رحمت میں جگہ پانے والا ہے اور دوسرا جہنم کی تپش میں جھلسنے والا ہے۔ تم کس خیال خام میں مبتلا ہو کہ آخر کار دونوں ایک ہی انجام سے دوچار ہوں گے۔ آخر میں مومن کو زندہ سے اور ہٹ دھرم کافروں کو مردہ سے تشبیہ دی گئی ہے۔یعنی مومن وہ ہے جس کے اندر احساس و ادراک اور فہم و شعور موجود ہے اور اس کا ضمیر اسے بھلے اور برے کی تمیز سے ہر وقت آگاہ کر رہا ہے۔ اور اس کے بر عکس جو شخص کفر کے تعصب میں پوری طرح غرق ہو چکا ہے اس کا حل اس اندھے سے بھی بدتر ہے جو تاریکی میں بھٹک رہا ہو، اس کی حالت تو اس مردے کی سی ہے جس میں کوئی حِس باقی نہ رہی ہو۔