اس رکوع کو چھاپیں

سورة یٰس حاشیہ نمبر۲۳

 یہ اس مرد مومن کے کمالِ اخلاق کا ایک نمونہ ہے ۔ جن لوگوں نے اسے ابھی ابھی قتل کیا تھا ان کے خلاف کوئی غصہ اور جذبۂ انتقام اس کے دل میں نہ تھا کہ وہ اللہ سے ان کے حق میں بد دعا کرتا اس کے بجائے وہ اب بھی ان کی خیر خواہی کیے جا رہا تھا۔ مرنے کے بعد اس کے دل میں اگر کوئی تمنّا پیدا ہوئی تو وہ بس یہ تھی کہ کاش میری قوم میرے اس انجامِ نیک سے باخبر ہو جائے  اور میری زندگی سے نہیں تو میری موت ہی سے سبق لے کر راہِ راست اختیار کر لے ۔ وہ شریف انسان اپنے قاتلوں کے لیے بھی جہنم نہ چاہتا تھا بلکہ یہ چاہتا تھا کہ وہ ایمان لا کر جنت کے مستحق بنیں۔ اسی کی تعریف کرتے ہوئے حدیث میں ارشاد ہوا ہے کہ نصح قومہ حیّا و میتا، ’’ اس شخص نے جیتے جی بھی اپنی قوم کی خیر خواہی کی اور مر کر بھی‘‘۔
اس واقعہ کو بیان کر کے اللہ تعالیٰ نے کفار مکہ کو در پردہ اس حقیقت پر متنبہ فرمایا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور ان کے ساتھ اہل ایمان بھی اسی طرح تمہارے سچے خیر خواہ ہیں جس طرح وہ مرد مومن اپنی قوم کا خیر خواہ تھا۔ یہ لوگ تمہاری تمام ایذا رسانیوں کے باوجود تمہارے خلاف کوئی ذاتی عناد اور کوئی جذبہ انتقام نہیں رکھتے ۔ ان کو دشمنی تم سے نہیں بلکہ تمہاری گمراہی سے ہے ۔ یہ تم سے صرف اس لیے لڑ رہے ہیں کہ تم راہ راست پر آ جاؤ۔ اس کے سوا ان کا کوئی مقصد نہیں ہے ۔
یہ آیت بھی منجملہ ان آیات کے ہے جن سے حیاتِ برزخ کا صریح ثبوت ملتا ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد سے قیامت تک کا زمانہ خالص عدم اور کامل نیستی کا زمانہ نہیں ہے ، جیسا کہ بعض کم  علم  لوگ گمان کرتے ہیں، بلکہ اس زمانہ میں جسم کے بغیر روح زندہ رہتی ہے ، کلام کرتی اور کلام سنتی ہے ، جذبات و احساسات رکھتی ہے ، خوشی اور غم محسوس کرتی ہے ، اور اہل دنیا کے ساتھ بھی اس کی دلچسپیاں باقی رہتی ہیں۔ اگر یہ نہ ہوتا تو مرنے کے بعد اس مرد مومن کو جنت کی بشارت کیسے دی جاتی  اور وہ اپنی قوم کے لیے یہ تمنا کیسے کرتا کہ کاش وہ اس کے انجام نیک سے باخبر ہو جائے ۔