اس رکوع کو چھاپیں

سورة یٰس حاشیہ نمبر۳۲

 رات اور دن کی آمد و رفت بھی انہی پیش پا افتادہ حقائق میں سے ہے جنہیں انسان محض اس بنا پر کہ وہ معمولاً دنیا میں پیش آ رہے ہیں، کسی التفات کا مستحق نہیں سمجھتا۔ حالانکہ اگر وہ اس بات پر غور کرے کہ دن کیسے گزرتا ہے اور رات کس طرح آتی ہے ، اور دن کے  جانے اور رات کے آنے میں کی حکمتیں کار فرما ہیں تو اسے خود محسوس ہو جائے کہ یہ ایک ربّ قدیر و حکیم کے وجود اور اس کی یکتائی کی روشن دلیل ہے ۔ دن کبھی نہیں جا سکتا اور رات کبھی نہیں آ سکتی جب تک زمین کے سامنے سے سورج نہ ہٹے ۔ دن کے ہٹنے اور  رات کے آنے میں جو انتہائی باقاعدگی پائی جاتی ہے وہ اس کے بغیر ممکن نہ تھی کہ سورج اور زمین کو ایک ہی اٹل ضابطہ نے جکڑ رکھا ہو۔ پھر اس رات اور دن کی آمد و رفت کا جو گہرا تعلق زمین کی مخلوقات کے ساتھ پایا جاتا ہے وہ اس بات پر صاف دلالت کرتا ہے کہ کوئی نے یہ نظام کمال درجے کی دانائی کے ساتھ بالا ارادہ قائم کیا ہے ۔ زمین پر انسان اور حیوان اور نباتات کا وجود، بلکہ یہاں پانی اور ہوا اور مختلف معدنیات کا وجود بھی دراصل نتیجہ ہے اس بات کا کہ زمین کو سورج سے ایک خاص فاصلے پر رکھا گیا ہے ، اور پھر یہ انتظام کیا گیا ہے کہ زمین کے مختلف حصے تسلسل کے ساتھ مقرر وقفوں کے بعد سورج کے سامنے آتے اور اس کے سامنے سے ہٹتے رہیں۔ اگر زمین کا فاصلہ سورج سے بہت کم یا بہت زیادہ ہوتا، یا اس کے ایک حصہ پر ہمیشہ رات رہتی اور دوسرے حصہ پر ہمیشہ دن رہتا، یا شب و روز کا الٹ پھیر بہت تیز یا بہت سست ہوتا، یا بے قاعدگی کے ساتھ اچانک کبھی دن نکل آتا اور کبھی رات چھا جاتی، تو ان تمام صورتوں میں اس کرے پر کوئی زندگی ممکن نہ ہوتی، بلکہ غیر زندہ مادوں کی شکل و ہئیت بھی موجودہ شکل سے بہت مختلف ہوتی۔ دل کی آنکھیں بند نہ ہوں تو آدمی اس نظام کے اندر ایک ایسے خدا کی کارفرمائی صاف دیکھ سکتا ہے جس نے اس زمین پر اس خاص قسم کی مخلوقات کو وجود میں لانے کا ارادہ کیا اور ٹھیک ٹھیک اس کی ضروریات کے مطابق زمین اور سورج کے درمیان یہ نسبتیں قائم کیں۔ خدا کا وجود اور اس کی توحید اگر کسی شخص کے نزدیک بعید از عقل ہے تو وہ خود ہی سوچ کر بتائے کہ اس کاریگری کو بہت سے خداؤں کی طرف منسوب کرنا، یا یہ سمجھنا کہ کسی اندھے بہرے قانون فطرت کے تحت یہ سب کچھ آپ ہی آپ پیدا ہو گیا ہے ، کس قدر عقل سے بعید ہونا چاہئے ۔ کسی ثبوت کے بغیر محض قیاس و گمان کی بنیاد پر جو شخص یہ دوسری سراسر نامعقول توجیہات مان سکتا ہے وہ جب یہ کہتا ہے کہ کائنات میں نظم اور حکمت اور مقصدیت کا پا یا جانا خدا کے ہونے کا کافی ثبوت نہیں ہے تو ہمارے لیے یہ باور کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ واقعی یہ شخص کسی نظریے یا عقیدے کو قبول کرنے کے لیے کسی درجے میں بھی، کافی یا نا کافی، عقلی ثبوت کی ضرورت محسوس کرتا ہے ۔