اس آیت کے دو ترجمے ممکن ہیں۔ ایک وہ جو اوپر متن میں کیا گیا ہے ۔ دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’ تم ڈراؤ ایک قوم کے لوگوں کو اُسی بات سے جس سے ان کے باپ دادا ڈرائے گئے تھے ، کیونکہ وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ‘‘۔ پہلا مطلب اگر لیا جائے تو باپ دادا سے مراد زمانۂ قریب کے باپ دادا ہوں گے ، کیونکہ زمانۂ بعید میں تو عرب کی سر زمین میں متعدد انبیاء آ چکے تھے اور دوسری مطلب اختیار کرنے کی صورت میں مراد یہ ہو گی کہ ادیم زمانے میں جو پیغام انبیاء کے ذریعہ سے اس قوم کے آبا و اجداد کے پاس آیا تھا اس کی اب پھر تجدید کرو، کیونکہ یہ لوگ اسے فراموش کر گئے ہیں۔ اس لحاظ سے دونوں ترجموں میں در حقیقت کوئی تضاد نہیں ہے اور معنی کے لحاظ سے دونوں اپنی اپنی جگہ درست ہیں۔ |