اس رکوع کو چھاپیں

سورة یٰس حاشیہ نمبر۵۵

 یہ حکم ان ہیکڑ مجرموں کے معاملہ میں دیا جائے گا جو ا پنے جرائم کا اقبال کرنے سے انکار کریں گے ، گواہیوں کو بھی جھٹلا دیں گے ، اور نامۂ اعمال کی صحت بھی تسلیم نہ کریں گے ۔ تب اللہ تعالیٰ حکم دے گا کہ اچھا، اپنی بکواس بند کرو اور دیکھو کہ تمہارے اپنے اعضائے بدن تمہارے کرتوتوں کی کیا روداد سناتے ہیں۔ اس سلسلہ میں یہاں صرف ہاتھوں اور پاؤں کی شہادت کا ذکر فرمایا گیا ہے ۔ مگر دوسرے مقامات پر بتایا گیا ہے کہ ان کی آنکھیں، ان کے کان، ان کی زبانیں اور ان کے جسم کی کھالیں بھی پوری داستان سنا دیں گی کہ وہ ان سے کیا کام لیتے رہے ہیں۔ یَوْ مَ تَشْھَدُ عَلَیْھِمْ اَلْسِنَتھُُمْ وَاَیْدِیْھِمْ وَاَرْجُلھُُمْ بِمَا کَا نُوْ ا یَعْمَلُوْنَ (النور۔ آیت  24)۔ حَتّٰی اِذَا مَا جَآؤُ ھَا شَھِدَ عَلَیْھِمْ سَمْعھُُمْ وَ اَبْصَارھُُمْ وَجُلُوْدھُُمْ بِمَا کَا نُوْ ا یَعْمَلُوْنَ( حٓم السجدہ۔آیت 20)۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم ان کے منہ بند کر دیں گے ، اور دوسری طرف سورۃ نور کی آیت میں فرماتا ہے کہ ان کی زبانیں گواہی دیں گی،ان دونوں باتوں میں تطابق کیسے ہو گا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ منہ بند  کر دینے سے مراد ان کا اختیار کلام سلب کر لینا ہے ، یعنی اس کے بعد وہ اپنی زبان سے اپنی مرضی کے مطابق بات نہ کر سکیں گے ۔ اور زبانوں کی شہادت سے مراد یہ ہے کہ ان کی زبانیں خود یہ داستان سنانا شروع کر دیں گی کہ ہم سے ان ظالموں نے کیا کام لیا تھا، کیسے کیسے کفر بکے تھے ، کیا کیا جھوٹ بولے تھے ، کیا کیا فتنے برپا کیے تھے ، اور کس کس موقع پر انہوں نے ہمارے ذریعہ سے کیا باتیں کی تھیں۔