اس رکوع کو چھاپیں

سورة الصفت حاشیہ نمبر١۷

پہلا فقرہ مجرمین کو خطاب کر کے ارشاد ہو گا۔ اور دوسرا فقرہ ان عام حاضرین کی طرف رخ کر کے فرمایا جائے گا جواس وقت جہنم کی روانگی کا منظر دیکھ رہے ہوں گے ۔ یہ فقرہ خود بتا رہا ہے کہ اس وقت حالت کیا ہو گی ۔ بڑے ہیکڑ مجرمین کے کَس بَل نکل چکے ہوں گے اور کسی مزاحمت کے بغیر وہ کان دبائے جہنم کی طرف جا رہے ہوں گے ۔ کہیں کوئی ہز میجسٹی دھکے کھا رہے ہوں گے اور دربار یوں میں سے کوئی ’’ اعلیٰ حضرت ‘‘ کو بچانے کے لیے آگے نہ بڑھے گا۔ کہیں کوئی فاتح عالَم اور ڈکٹیٹر انتہائی ذلت کے ساتھ چلا جا رہا ہو گا اور اس کا لشکر جرّار خود اسے سزا کے لیے پیش کر دے گا۔ کہیں کوئی پیر صاحب یا گرو جی یا ہولی فادر واصل بجہنم  ہو رہے ہوں گے اور مُریدوں میں سے کسی کو یہ فکر نہ ہو گی کہ حضرتِ والا کی توہین نہ ہونے پائے ۔ کہیں کوئی لیڈر صاحب کسمپرسی کے عالم میں جہنم کی طرف رواں دواں ہوں گے اور دنیا میں جو لوگ ان کی کبریائی کے جھنڈے اٹھائے پھرتے تھے وہ سب وہاں ان کی طرف سے نگاہیں پھیر لیں گے ۔ حد یہ ہے کہ جو عاشق دنیا میں اپنے معشوق پر جان چھڑکتے تھے انہیں بھی اس کے حال بد کی کوئی پروا نہ ہو گی۔ اس حالت کا نقشہ کھینچ کر اللہ تعالیٰ دراصل یہ بات ذہن نشین کرانا چاہتا ہے کہ دنیا میں انسان اور انسان کے جو تعلقات اپنے رب سے بغاوت پر مبنی ہیں وہ کس طرح آخرت میں ٹوٹ کر رہ جائیں گے ، اور یہاں جو لوگ ہمچو ما دیگرے نیست  کے غرور میں مبتلا ہیں ، وہاں ان کا تکبر کس طرح خاک میں مل جائے گا۔