اندازِ کلام صاف بتا رہا ہے کہ اپنے اس دوزخی یار سے کلام کرتے کرتے یکایک یہ جنتی شخص اپنے آپ سے کلام کرنے لگتا ہے اور یہ تین فقر ے اس کی زبان سے اس طرح ادا ہوتے ہیں جیسے کوئی شخص اپنے آپ کو ہر توقع اور ہر اندازے سے برتر حالت میں پا کر انتہائی حیرت و استعجاب اور وفور مسرت کے ساتھ آپ ہی آپ بول رہا ہو۔ اس طرح کے کلام میں کوئی خاص شخص مخاطب نہیں ہوتا ، اور نہ اس کلام میں جو سوالات آدمی کرتا ہے ان سے درحقیقت کوئی بات کسی سے پوچھنا مقصود ہوتا ہے ۔ بلکہ اس میں آدمی کے اپنے ہی احساسات کا اظہار اس کی زبان سے ہونے لگتا ہے ۔ وہ جنتی شخص اس دوزخی سے کلام کرتے کرتے یکایک یہ محسوس کرتا ہے کہ میری خوش قسمتی مجھے کہاں لے آئی ہے ۔ اب نہ موت ہے نہ عذاب ہے ۔ ساری کلفتوں کا خاتمہ ہو چکا ہے اور مجھے حیات جاوداں نصیب ہو چکی ہے ۔ اسی احساس کی بنا پر وہ بے ساختہ بول اٹھتا ہے کیا اب ہم اس مرتبے کو پہنچ گئے ہیں ؟ |