اس رکوع کو چھاپیں

سورة الصفت حاشیہ نمبر٦۲

 نحویوں کا ایک گروہ کہتا ہے کہ یہاں ’’اور ‘‘ بمعنی ’’تو‘‘ ہے یعنی فقرہ یوں ہے کہ ’’جب ان دونوں نے سر تسلیم خم کر دیا اور ابراہیمؑ نے بیٹے کو ماتھے کے بل گرا دیا تو ہم نے ندا دی ‘‘۔ لیکن ایک دوسرا گروہ کہتا ہے کہ یہاں لفظ ’’جب‘‘ کا جواب محذوف ہے اور اس کو ذہن سامع پر چھوڑ دیا گیا ہے ۔ کیونکہ بات اتنی بڑی تھی کہ اسے الفاظ میں بیان کرنے کے بجائے تصور ہی کے لیے چھوڑ دینا زیادہ مناسب تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے دیکھا ہو گا کہ بوڑھا باپ اپنے ارمانوں سے مانگے ہوئے بیٹے کو محض ہماری خوشنودی پر قربان کر دینے کے لیے تیار ہو گیا ہے اور بیٹا بھی گلے پر چھری چلوانے کے لیے راضی ہے ، تو یہ منظر دیکھ کر کیسا کچھ دریائے رحمت نے جوش مارا ہو گا، اور مالک، کو ان باپ بیٹوں پر کیسا کچھ پیار آیا ہو گا، اس کا بس تصور ہی کیا جا سکتا ہے ۔ الفاظ میں اس کی کیفیت جتنی کچھ بھی بیان کی جائے گی وہ اس کو ادا نہیں کرے گی بلکہ اس کی اصلی شان سے کچھ گھٹ کر ہی ہو گی۔