اس رکوع کو چھاپیں

سورة الصفت حاشیہ نمبر٦۸

 یہ فقرہ اس پورے مقصد پر روشنی ڈالتا ہے جس کے لیے حضرت ابراہیمؑ کی قربانی کایہ قصہ یہاں بیان کیا گیا ہے ۔ حضرت ابراہیمؑ کے دو بیٹوں کی نسل سے دو بہت بڑی قومیں پیدا ہوئیں ۔ ایک بنی اسرائیل ، جن کے گھر سے دنیا کے دو بڑے مذہب (یہودیت اور نصرانیت)نکلے اور انہوں نے روئے زمین کے بہت بڑے حصے کو حلقہ بگوش بنایا ۔ دوسرے بنی اسمٰعیل جو نزول قرآن کے وقت تمام اہل عرب کے مقتدا و پیشوا تھے ، اور اس وقت مکہ معظمہ کے قبیلہ قریش کو ان میں سب سے زیادہ اہم مقام حاصل تھا۔ نسلِ ابراہیمی کی ان دونوں شاخوں کو جو کچھ بھی عروج نصیب ہوا وہ حضرت ابراہیم اور ان کے ان دو عظیم المرتبت صاحبزادوں کے ساتھ انتساب کی بدولت ہوا ، ورنہ دنیا میں نہ معلوم ایسے ایسے کتنے خاندان پیدا ہوئے ہیں اور گوشۂ گمنامی میں جا پڑے ہیں ۔ اب  اللہ تعالیٰ اس خاندان کی تاریخ کا سب سے زیادہ زرین کارنامہ سنانے کے بعد ان دونوں گروہوں کو یہ احساس دلاتا ہے کہ تمہیں دنیا میں یہ جو کچھ شرف نصیب ہوا ہے وہ خدا پرستی اور اخلاص و فدویّت کی ان شاندار روایات کی وجہ سے ہوا ہے جو تمہارے باپ دادا ابراہیم و اسمٰعیل اور اسحاق علیہم السلام نے قائم کی تھیں ۔ وہ انہیں بتاتا ہے کہ ہم نے ان کو جو برکت عطا فرمائی اور ان پر اپنے فضل و کرم کی جو بارشیں برسائیں ، یہ کوئی اندھی بانٹ نہ تھی کہ بس یونہی ایک شخص اور اس کے دو لڑکوں کو چھانٹ کر نواز دیا گیا ہو، بلکہ انہوں نے اپنے مالک حقیقی کے ساتھ اپنی وفاداری کے کچھ ثبوت دیے تھے اور ان کی بنا پر وہ ان عنایات کے مستحق بنے تھے ۔ اب تم لوگ محض اس فخر کی بنا پر کہ تم ان کی اولاد ہو، ان عنایات کے مستحق نہیں ہو سکتے ۔ ہم تو یہ دیکھیں گے کہ تم میں سے محسن کون ہے اور ظالم کون۔ پھر جو جیسا ہو گا، اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کریں گے ۔