بعل کے لغوی معنی آقا ، سردار اور مالک کے ہیں ۔ شوہر کے لیے بھی یہ لفظ بولا جاتا تھا اور متعدد مقامات پر خود قرآن مجید میں استعمال ہوا ہے ، مثلاً سورہ بقرہ آیت 228 ، سورہ نساء آیت 127، سورہ ہود آیت 72، اور سورہ نور آیت 31 میں ۔ لیکن قدیم زمانے کی سامی اقوام اس لفظ کو الٰہ یا خداوند کے معنی میں استعمال کرتی تھیں اور انہوں نے ایک خاص دیوتا کو بعل کے نام سے موسوم کر رکھا تھا ۔خصوصیت کے ساتھ لبنان کی فنیقی قوم (Phoenicians)کا سب سے بڑا نر دیوتا کو بعل تھا اور اس کی بیوی عستارات (Ashtoreth)ان کی سب سے بڑی دیوی تھی ۔ محققین کے درمیان اس امر میں اختلاف ہے کہ آیا بعل سے مراد سورج ہے یا مشتری، اور عستارات سے مراد چاند ہے یا زہرہ ۔ بہرحال یہ بات تاریخی طور پر ثابت ہے کہ بابل سے لے کر مصر تک پورے مشرق اوسط میں بعل پرستی پھیلی ہوئی تھی، اور خصوصاً لبنان ، اور شام و فلسطین کی مشرک اقوام بری طرح اس میں مبتلا تھیں ۔ بنی اسرائیل جب مصر سے نکلنے کے بعد فلسطین اور مشرق اردن میں آ کر آباد ہوئے ، اور توراۃ کے سخت امتناعی احکام کی خلاف ورزی کر کے انہیں نے ان مشرک قوموں کے ساتھ شادی بیاہ اور معاشرت کے تعلقات قائم کرنے شروع کر دیے ، تو ن کے اندر بھی یہ مرض پھیلنے لگا ۔ بائیبل کا بیان ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلیفہ اور حضرت یوشع بن جون کی وفات کے بعد ہی بنی اسرائیل میں یہ اخلاقی و دینی زوال رو نما ہونا شروع ہو گیا تھا: |