اس رکوع کو چھاپیں

سورة الصفت حاشیہ نمبر۷١

 بعل کے لغوی معنی آقا ، سردار  اور مالک کے ہیں ۔ شوہر کے لیے بھی یہ لفظ بولا جاتا تھا اور متعدد مقامات پر خود قرآن مجید میں استعمال ہوا ہے ، مثلاً سورہ بقرہ آیت 228 ، سورہ نساء آیت 127، سورہ ہود آیت 72، اور سورہ نور آیت 31 میں ۔ لیکن قدیم زمانے کی سامی اقوام اس لفظ کو الٰہ یا خداوند کے معنی میں استعمال کرتی تھیں اور انہوں نے ایک خاص دیوتا کو بعل کے نام سے موسوم کر رکھا تھا ۔خصوصیت کے ساتھ لبنان کی فنیقی قوم (Phoenicians)کا سب سے بڑا نر دیوتا کو بعل تھا اور اس کی بیوی عستارات (Ashtoreth)ان کی سب سے بڑی دیوی تھی ۔ محققین کے درمیان اس امر میں اختلاف ہے کہ آیا بعل سے مراد سورج ہے یا مشتری، اور عستارات سے مراد چاند ہے یا زہرہ ۔ بہرحال یہ بات تاریخی طور پر ثابت ہے کہ بابل سے لے کر مصر تک پورے مشرق اوسط میں بعل پرستی پھیلی ہوئی تھی، اور خصوصاً لبنان ، اور شام و فلسطین کی مشرک اقوام بری طرح اس میں مبتلا تھیں ۔ بنی اسرائیل جب مصر سے نکلنے کے بعد فلسطین اور مشرق اردن میں آ کر آباد ہوئے ، اور توراۃ کے سخت امتناعی احکام کی خلاف ورزی کر کے انہیں نے ان مشرک قوموں کے ساتھ شادی بیاہ اور معاشرت کے تعلقات قائم کرنے شروع کر دیے ، تو ن کے اندر بھی یہ مرض پھیلنے لگا ۔ بائیبل کا بیان ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلیفہ اور حضرت یوشع بن جون کی وفات کے بعد ہی بنی اسرائیل میں یہ اخلاقی و دینی زوال رو نما ہونا شروع ہو گیا تھا:
’’اور بنی اسرائیل نے خدا کے آگے بدی کی اور بعلیم کی پرستش کرنے لگے ـــــــ اور وہ خداوند کو چھوڑ کر بعل اور عستارات کی پرستش کرنے لگے ‘‘ (قضاۃ 2:َ11۔13 )
’’ سو بنی اسرائیل کنعانیوں اور حتّیوں اور اموریوں اور فِرِ زّیوں اور یبوسیوں کے درمیان بس گئے اور بیٹیوں سے آپ نکاح کرنے اور اپنی بیٹیاں ان کے بیٹوں کو سینے اور ان کے دیوتاؤں کی پرستش کرنے لگے (قضاۃ 2:5۔2)

اس زمانہ میں بعل پرستی اسرائیلیوں میں اس قدر گھُس چکی تھی کہ بائیبل کے بیان کے مطابق ان کی ایک بستی میں علانیہ بعل کا مذبح بنا ہوا تھا جس پر قربانیاں کی جاتی تھیں ۔ ایک خدا پرست اسرائیل اس حالت کو برداشت نہ کر سکا اور اس نے رات کے وقت چپکے سے یہ مذبح توڑ دیا۔ دوسرے روز ایک مجمع کثیر اکٹھا ہو گیا اور وہ اس شخص کے قتل کا مطالبہ کرنے لگا جس نے شرک کے اس اڈّے کو توڑا تھا(قضاۃ 6:25۔32)۔ اس صورت حال کو آخر کار حضرت سموایل ، طالوت ، داؤد علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام نے ختم کیا اور نہ صرف بنی اسرائیل کی اصلاح کی بلکہ اپنی مملکت میں بالعموم شرک و بت پرستی کو دبا دیا ۔ لیکن حضرت سلیمان کی وفات کے بعد یہ فتنہ پھر ابھرا اور خاص طور پر شمالی فلسطین کی اسرائیلی ریاست بعل پرستی کے سیلاب میں بہہ گئی۔