اس رکوع کو چھاپیں

سورة الصفت حاشیہ نمبر۷۳

 حضرت الیاس علیہ السلام کو ان کی زندگی میں تو بنی اسرائیل نے جیسا کچھ ستایا اس کی داستان اوپر گزر چکی ہے ، مگر بعد میں وہ ان کے ایسے گرویدہ و شیفتہ ہوئے کہ حضرت موسیٰ کے بعد کم ہی لوگوں کو انہوں نے ان بڑھ کر جلیل القدر مانا ہو گا۔ ان کے ہاں مشہور ہو گیا کہ الیاس ہو گیا کہ الیاس علیہ السلام ایک بگولے میں آسمان پر زندہ اٹھا لیے  گئے ہیں (2 سلاطین ، باب دوم) اور یہ کہ وہ پھر دنیا میں تشریف لائیں گے ۔ چنانچہ بائیبل کی کتاب ملا کی میں لکھا ہے :
’’ دیکھو ، خداوند کے بزرگ اور ہولناک دن کے آنے سے پہلے میں ایلیاہ نبی کو تمہارے پاس بھیجوں گا‘‘(4:5)

حضرت یحیٰی اور  عیسیٰ علیہما السلام کی بعثت کے زمانہ میں یہودی بالعموم تین آنے والوں کے منتظر تھے ۔ ایک حضرت الیاس ۔ دوسرے مسیح۔ تیسرے ’’ وہ نبی‘‘(یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم) ۔ جب حضرت یحییٰ کی نبوت شروع ہوئی اور انہوں نے لوگوں کو  اصطباغ  دنیا شروع کیا تو یہودیوں کے مذہبی پیشواؤں نے ان کے پاس جاکر پوچھا کیا تم مسیح ہو؟ انہوں نے کہا نہیں ۔ پھر پوچھا کیا تم ایلیاہ ہو؟ انہوں نے کہا نہیں ۔ پھر پوچھا کیا تم ’’ وہ نبی ‘‘ ہو؟ انہوں نے کہا میں وہ بھی نہیں ہوں ۔ تب انہوں نے کہا اگر تم نہ مسیح ہو، نہ ایلیاہ ، نہ وہ نبی، تو پھر تم بپتسمہ کیوں دیتے ہو؟ (یوحنا 1:19۔26) ۔ پر کچھ مدت بعد جب حضرت عیسیٰ علیہ و سلم کا غلغلہ بلند ہوا تو یہودیوں میں یہ خیال پھیل گیا کہ شاید ایلیاہ نبی آ گئے ہیں (مرقس 6:15۔15) خود حضرت عیسیٰ علیہ والسلام کے حواریوں میں بھی یہ خیال پھیلا ہوا تھا کہ ایلیاہ نبی آنے والے ہیں ۔ مگر حضرت نے یہ فرما کر ان کی غلط فہمی کو رفع فرمایا کہ ’’ ایلیاہ تو آ چکا ، اور لوگوں نے اسے نہیں پہچانا بلکہ جو چاہا اس کے ساتھ کیا۔‘‘ اس سے حواری خود جان گئے کہ دراصل آنے والے حضرت یحییٰ تھے نہ کہ آٹھ سو برس پہلے گزرے ہوئے حضرت الیاس (متی 11:14 اور متی 17:10۔13) ۔