یہ وہ تنبیہ ہے جو اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے توبہ قبول کرنے اور بلندیِ درجات کی بشارت دینے کے ساتھ حضرت داؤد کو فرمائی۔ اس سے یہ بات خود بخود ظاہر ہو جاتی ہے کہ جو فعل ان سے صادر ہوا تھا اس کے اندر خواہش نفس کا کچھ دخل تھا،اس کا حاکمانہ اقتدار کے نامناسب استعمال سے بھی کوئی ایسا فعل تھا جو حق کے ساتھ حکومت کرنے والے کسی فرماں روا کو زیب نہ دیتا تھا۔ |