اس رکوع کو چھاپیں

سورة ص حاشیہ نمبر۳۵

 ان آیات کے ترجمہ اور تفسیر میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے ۔
ایک گروہ ان کا مطلب یہ بیان کرتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام گھوڑوں کے معاینے اور ان کو دَوڑ کے ملاحظہ میں اس قدر مشغول ہوئے کہ نماز عصر بھول گئے ، یا بقول بعض اپنا کوئی خاص وظیفہ پڑھنا بھول گئے جو وہ عصر  و مغرب کے درمیان پڑھا کرتے تھے ، یہاں تک کہ سورج چھپ گیا۔ تب انہوں  نے حکم دیا کہ ان گھوڑوں کو واپس لاؤ، اور جب وہ واپس آئے تو حضرت سلیمانؑ نے تلوار لے کر ان کا ٹنا، یا بالفاظ دیگر، اللہ کے لیے ان کو قربان کرنا شروع کر دیا کیونکہ وہ ذکر الٰہی  سے غفلت کے موجب بن گئے تھے ۔ اس مطلب کے لحاظ سے ان آیات کا ترجمہ یہ کیا گیا ہے ۔: ’’تو اس نے کہا، میں نے اس مال کی محبت کو ایسا پسند کیا کہ اپنے رب کی یاد (نماز عصر، یا وظیفہ خاص) سے غافل ہو گیا، یہاں تک کہ (سورج پردۂ مغرب میں ) چھُپ گیا۔  (پھر اس نے حکم دیا کہ) واپس لاؤ ان (گھوڑوں ) کو (اور جب وہ واپس آئے ) تو لگا اُن کی پنڈلیوں اور گردنوں پر (تلوار کے ) ہاتھ چلانے ‘‘۔ یہ تفسیر اگرچہ بعض اکابر مفسرین نے کی ہے ، لیکن یہ اس وجہ سے قابل ترجیح نہیں ہے کہ اس میں مفسر کو تین باتیں اپنی طرف سے بڑھانی پڑتی ہیں جن کا کوئی ماخذ نہیں ہے ۔ اوّلاً وہ فرض کرتا ہے کہ حضرت سلیمان کی نماز عصر اس شغل میں چھوٹ گئی، یا ان کا کوئی خاص وظیفہ چھوٹ گیا جو وہ اس وقت پڑھا کرتے تھے ۔ حالانکہ قرآن کے الفاظ صرف یہ ہیں ، اِنِّی اَحْبَیْتُ حُبَّ الْخَیْرِ عَنْ ذِکْرِ رَبِّی۔ ان الفاظ کا ترجمہ یہ تو گیا جاسکتا ہے کہ ’’ میں نے اس مال کو اتنا پسند کیا کہ اپنے رب کی یاد سے غافل ہو گیا،‘‘ لیکن ان میں نماز عصر یا کوئی خاص وظیفہ مراد لینے کے لیے کوئی قرینہ نہیں ہے ۔ ثانیاً وہ یہ بھی فرض کرتا ہے کہ سورج چھپ گیا، حالانکہ وہاں سورج کا کوئی ذکر نہیں ہے بلکہ حَتّیٰ تَوَ ا رَتْ بِا لْحِجَاب کے الفاظ پڑ ھ کر آدمی کا ذہن بال تامُّل الصَّا فِنَا تُ الْجِیَاد  کی طرف پھرتا ہے جن کا ذکر پچھلی آیت میں ہو چکا ہے ۔ ثانیاً وہ یہ بھی فرض کرتا ہے کہ حضرت سلیمان نے گھوڑوں کی پنڈلیوں اور گردنوں پر خالی مسح نہیں کیا بلکہ تلوار سے مسح کیا، حالانکہ قرآن میں مَسْحاً بِا لسَّیْفِ کے الفاظ نہیں ہیں ، اور کوئی قرینہ بھی ایسا موجود نہیں ہے جس کی بنا پر مسح سے مسح بالسُیف مراد لیا جا سکے ۔ ہمیں اس طریق تفسیر سے اُصولی اختلاف ہے ۔ہمارے نزدیک قرآن کے الفاظ سے زائد کوئی مطلب لینا چار ہی صورتوں میں درست ہو سکتا ہے ۔ یا تو قرآن ہی کی عبارت میں اس کے لیے کوئی قرینہ موجود ہو، یا قرآن میں کسی دوسرے مقام پر اس کی طرف کوئی اشارہ ہو، یا کسی صحیح حدیث میں اس اجمال کی شرح ملتی ہو، یا اس کا اور کوئی قابِل اعتبار ماخذ ہو، مثلاً تاریخ کا معاملہ ہے تو تاریخ میں اس اجمال کی تفصیلات ملتی ہوں ، آثار کائنات کا ذکر ہے تو مستند علمی تحقیقات سے اس کی تشریح ہو رہی ہو، اور احکام شرعیہ کا معاملہ ہے تو فقہ اسلامی کے مآخذ اس کی وضاحت کر رہے ہوں ۔ جہاں ان میں سے کوئی چیز بھی نہ ہو وہاں محض بطور خود ایک قصہ تصنیف کر کے قرآن کی عبارت میں شامل کر دینا ہمارے نزدیک صحیح نہیں ہے ۔
ایک گروہ نے مذکورہ بالا ترجمہ و تفسیر سے تھوڑا سا اختلاف کیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ  حَتّیٰ تَوَا رَت ْ بِا لْحِجَابِ  اور رُدُّ وْ ھَا عَلَیَّ، دونوں کی ضمیر سورج ہی کی طرف پھرتی ہے ۔ یعنی جب نماز عصر فوت ہو گئی اور سورج پردۂ مغرب میں چھُپ گیا تو حضرت سلیمانؑ نے کارکنان قضا و قدر سے کہا کہ پھیر لاؤ سورج کو تاکہ عصر کا وقت واپس آ جائے اور میں نماز ادا کر لوں ، چنانچہ سورج پلٹ آیا اور انہوں نے نماز پڑھ لی۔ لیکن یہ تفسیر اوپر والی تفسیر سے بھی زیادہ ناقابل قبول ہے ۔ اس لیے نہیں کہ اللہ تعالیٰ سورج کو واپس لانے پر قادر نہیں ہے ، بلکہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا قطعاً کوئی ذکر نہیں فرمایا ہے ، حالانکہ حضرت سلیمانؑ کے لیے اتنا بڑا معجزہ صادر ہوا ہوتا تو وہ ضرور قابل ذکر ہونا چاہیے تھا۔ اور اس لیے بھی کہ سورج کا غروب ہو کر پلٹ آنا ایسا غیر معمولی واقعہ ہے کہ اگر وہ در حقیقت پیش آیا ہوتا تو دنیا کی تاریخ اس کے ذکر سے پر ہرگز خالی نہ رہتی۔ اس تفسیر کی تائید میں یہ حضرات بعض احادیث بھی پیش کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ سورج کا غروب ہو کر دوبارہ پلٹ آنا ایک ہی دفعہ کا واقعہ  نہیں ہے بلکہ یہ کئی دفعہ پیش آیا ہے ۔ قصہ معراج میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے سورج کے واپس لائے جانے کا ذکر ہے ۔ غزوہ خندق کے موقع پر بھی حضورؐ کے لیے وہ واپس لایا گیا۔ اور حضرت علیؓ کے لیے جب کہ حضورؐ کی گود میں سر رکھے سو رہے تھے اور ان کی نماز عصر قضا ہو گئی تھی، حضورؐ  نے سورج کی واپسی کی دعا فرمائی تھی اور وہ پلٹ آیا تھا۔ لیکن ان روایات سے استدلال اس تفسیر سے بھی زیادہ کمزور ہے جس کی تائید کے لیے انہیں پیش کیا گیا ہے ۔ حضرت علیؓ کے متعلق جو روایت بیان کی جاتی ہے اس کے تمام طُرُق اور رجال پر تفصیلی بحث کر کے ابن تمییہؒ نے اسے موضوع ثابت کیا ہے ۔ امام احمدؒ فرماتے ہیں کہ اس کی کوئی اصل نہیں ہے ، اور ابن جَوزی کہتے ہیں کہ وہ بلا شک و شبہ موضوع ہے ۔ غزوہ خندق کے موقع پر سورج کی واپسی والی روایت بھی بعض محدثین کے نزدیک ضعیف اور بعض کے نزدیک موضوع ہے ، رہی قصّۂ معراج والی روایت، تو اس کی حقیقت یہ ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کفار مکہ سے شبِ معراج کے حالات بیان فرما رہے تھے تو کفار نے آپ سے ثبوت طلب کیا۔ آپؐ نے فرمایا کہ بیت المقدس کے راستے میں فلاں مقام پر ایک قافلہ ملا تھا جس کے ساتھ فلاں واقعہ پیش آیا تھا۔ کفّار نے پوچھا وہ قافلہ کس روز مکہ پہنچے گا۔ آپؐ نے فرمایا فلاں روز۔جب وہ دن آیا تو قریش کے لوگ دن بھر قافلہ کا انتظار کرتے رہے یہاں تک کہ شام ہونے کو آ گئی۔ اس موقع پر حضورؐ نے دعا کی کہ دن اس وقت تک غروب نہ ہو جب تک قافلہ نہ آ جائے ۔ چنانچہ فی الواقع سورج ڈوبنے سے پہلے وہ پہنچ گیا۔ اس واقعہ کو بعض راویوں نے اس طرح بیان کیا ہے کہ اس روز دن میں ایک گھنٹہ کا اضافہ کر دیا گیا اور سورج اتنی دیر تک کھڑا رہا۔سوال یہ ہے کہ اس قسم کی روایات کیا اتنے بڑے غیر معمولی واقعہ کے ثبوت میں کافی شہادت ہیں؟ جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں ، سورج کا پلٹ آنا، یا گھنٹہ بھر رکا رہنا کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے ۔ ایسا واقعہ اگر فی الواقع پیش آگیا ہوتا تو دنیا بھر میں اس کی دھوم مچ گئی ہوتی۔ بعض اخبارِ آحاو تک اس کا ذکر کیسے محدود رہ سکتا تھا؟
مفسرین کا تیسرا گروہ ان آیات کا وہی مفہوم لیتا ہے جو ایک خالی الذہن آدمی اس ک الفاظ پڑھ کر اس سے سمجھ سکتا ہے ۔ اس تفسیر کے مطابق واقعہ بس اس قدر ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے سامنے جب علیٰ درجے کے اصیل گھوڑوں کا ایک دستہ پیش کیا گیا تو انہیں نے فرمایا، یہ مال مجھے کچھ اپنی بڑائی کی غرض سے یا اپنے نفس کی خاطر محبوب نہیں ہے بلکہ ان چیزوں سے دلچسپی کو میں اپنے رب کا کلمہ بلند کرنے کے لیے پسند کرتا ہوں ۔ پھر انہوں نے ان گھوڑوں کی دوڑ کرائی یہاں تک کہ وہ نگاہوں سے اوجھل ہو گئی۔ اس کے بعد انہیں نے ان کو واپس طلب فرمایا اور جب وہ آئے تو بقول ابن عباس، جعل یسمح اعراف الخیل و عرا قیبھا  حُبًّ لھا، ’’حضرت ان کی گردنوں پر اور ان کی پنڈلیوں پر محبت سے ہاتھ پھیرنے لگے ‘‘۔  یہی تفسیر ہمارے نزدیک صحیح ہے ، کیوں کہ یہ قرآن مجید کے الفاظ سے پوری مطابقت رکھتی ہے اور  مطلب کی تکمیل کے لیے اس میں ایسی کوئی بات بڑھانی نہیں پڑتی جو نہ قرآن میں ہو، نہ کسی صحیح حدیث میں اور نہ بنی اسرائیل کی تاریخ میں ۔
یہ بات بھی اس موقع پر نگاہ رہنی چاہیے کہ اس واقعہ کا ذکر اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان کے حق میں  نِعْمَ الْعَبْدُ اِنَّہٗ اَوَّابٌ  (بہترین بندہ، اپنے رب کی طرف کثرت سے رجوع کرنے والا) کے تعریفی کلمات ارشاد فرمانے کے معاً بعد کیا ہے ۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مقصود دراصل یہ بتانا ہے کہ دیکھو، وہ ہمارا ایسا اچھا بندہ تھا، بادشاہی کا سر و سامان اس کو دنیا کی خاطر نہیں بلکہ ہماری خاطر پسند تھا، اپنے شاندار رسالے کو دیکھ کر دنیا پرست فرمانرواؤں کی طرح اس نے ڈینگیں نہ ماریں بلکہ اس وقت بھی ہم ہی اسے یاد آئے ۔