اس رکوع کو چھاپیں

سورة ص حاشیہ نمبر۴۹

 یعنی ان کی تمام سرفرازیوں کی اصل وجہ یہ تھی کہ ان کے اندر دنیا طلبی اور دنیا پرستی کا شائبہ تک نہ تھا، ان کی ساری فکر و سعی آخرت  کے لیے تھی، وہ خود بھی اس کو یاد رکھتے تھے اور دوسروں کو بھی یاد دلاتے تھے ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو وہ مرتبے دیے جو دنیا بنانے کی فکر میں منہمک رہنے والے لوگوں کو کبھی نصیب نہ ہوئے ۔ اس سلسلے میں یہ لطیف نکتہ بھی نگاہ میں رہنا چاہیے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے آخرت کے لیے صرف  الدّار (وہ گھر، یا  اصل گھر ) کا لفظ استعمال فرمایا  ہے ۔ اس سے یہ حقیقت ذہن نشین کرنی مطلوب ہے کہ یہ دنیا سرے سے انسان کا گھر ہے ہی نہیں ، بلکہ یہ صرف ایک گزر گاہ ہے ، ایک مسافر خانہ ہے ، جس سے آدمی کو بہر حال رخصت ہو جانا ہے ۔ اصل گھر وہی آخرت کا گھر ہے ۔ جو شخص اس کو  سنوارنے کی فکر کرتا ہے وہی صاحب بصیرت ہے اور اللہ کے نزدیک لامحالہ اسی کو پسندیدہ انسان ہونا چاہیے ۔ رہا وہ شخص جو اس مسافر خانے میں اپنی چند روزہ قیام گاہ کو سجانے کے لیے وہ حرکتیں کرتا ہے جن سے آخرت کا اصل گھر اس کے لیے اُجڑ جائے  وہ عقل کا اندھا ہے اور فطری بات ہے کہ ایسا آدمی اللہ کو پسند نہیں آ سکتا۔