اس رکوع کو چھاپیں

سورة ص حاشیہ نمبر۵۰

 قرآن مجید میں ان کا ذکر صرف دو جگہ آیا ہے ۔ ایک سورہ انعام آیت 86 میں ۔ دوسرے اس جگہ۔ اور دونوں مقامات پر کوئی تفصیل نہیں ہے بلکہ صرف انبیائے کرام کے سلسلے میں ان کا نام لیا گیا ہے ۔ وہ بنی اسرائیل کے اکابر انبیاء  میں سے تھے ۔ دریائے اُردُن کے کنارے ایک مقم ایبل محولہ (Abel  Meholah)کے رہنے والے تھے ۔ یہودی اور عیسائی ان کو اِلِیشَع (Elisha ) کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔ حضرت الیاس علیہ السلام جس زمانے میں جزیرہ نمائے سینا میں پناہ گزیں تھے ، ان کو چند اہم کاموں کے لیے شام و فلسطین کی طرف واپس آنے کا حکم دیا گیا، جن میں سے ایک کام یہ تھا یہ حضرت الیسع کو اپنی جانشینی کے لیے تیار کریں ۔ اس فرمان کے مطابق جب حضرت الیاس ان کی بستی پر پہنچے تو دیکھا کہ یہ بارہ جوڑی بیل آگے لے زمین جوت رہے ہیں اور خود بارہویں جوڑی کے ساتھ ہیں ۔ انہوں نے ان کے پاس سے گزرتے ہوئے ان پر اپنی چادر ڈال دی اور یہ کھیتی باڑی چھوڑ کر ساتھ ہولیے (سلاطین، باب 19، فقرات 15۔تا۔ 21)۔تقریباً دس بارہ سال یہ ان کے زیر تربیت رہے پھر جب اللہ تعالیٰ نے ان کو اٹھا لیا تو یہ انکی جگہ مقرر ہوئے ۔ (2 سلاطین، باب 2)۔ بائیبل کی کتاب 2 سلاطین میں باب 2 سے 13 تک  ان کا تذکرہ بڑی تفصیل کے ساتھ درج ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ شمالی فلسطین کی اسرائیلی سلطنت جب شرک و بت پرستی اور اخلاقی نجاستوں میں غرق ہوتی چلی گئی تو آخر کا انہوں نے یاہو بن یہوسفط بن مسّی کو اس خانوادہ شاہی کے خلاف کھڑا کیا جس کے کرتوتوں سے اسرائیل میں یہ برائیاں پھیلی تھیں ، اور اس نے نہ صرف بعل پرستی کا خاتمہ کیا، بلکہ اس بدکردار خاندان کے بچے بچے کو قتل کر دیا۔ لیکن اس اصلاحی انقلاب سے بھی وہ برائیاں پوری طرح نہ مت سکیں جو اسرائیل کی ر گ رگ میں اُتر چکی تھیں ، اور حضرت الیسع کی وفات کے بعد تو انہوں نے طوفانی شکل اختیار کر لی، یہاں تک کہ سامریہ پر اشوریوں کے پے در پے حملے شروع ہو گئے (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو  تفہیم القرآن جلد دوم، ص 597۔ اور تفسیر سورہ صافات، حاشیہ نمبر 70۔71)