اس رکوع کو چھاپیں

سورة ص حاشیہ نمبر۷۰

 یہ پورا قصہ سرداران قریش کے اس قول کے جواب میں سنایا گیا ہے کہ أاُنْزِلَ عَلَیْہِ الذِّکْرُ مِنْ بَیْنِنَا، ’’ کیا ہمارے درمیان بس یہی ایک شخص رہ گیا تھا جس پر ذکر نازل کیا گیا ‘‘؟ اس کا ایک جواب تو وہ تھا جو آیات نمبر 9 اور 10 میں دیا گیا تھا کہ کیا خدا کی رحمت کے خزانوں کے تم مالک ہو، اور کیا آسمان  و زمین کی بادشاہی تمہاری ہے اور یہ فیصلہ کرنا تمہارا کام ہے کہ خدا کا نبی کسے بنایا جائے اور کسے نہ بنایا جائے؟ دوسرا جواب یہ ہے ، اور اس میں سرداران قریش کو بتایا گیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے مقابلہ میں تمہارا حسد اور اپنی بڑائی کا گھمنڈ، آدم علیہ السلام کے مقابلے میں ابلیس کے حسد اور گھمنڈ سے ملتا جلتا ہے ۔ ابلیس نے بھی اللہ تعالیٰ کے اس حق کو ماننے سے انکار کیا تھا کہ جسے وہ چاہے اپنا خلیفہ بنائے ، اور تم بھی اُس کے اس حق کو تسلیم کرنے سے انکار کر رہے ہو کہ جسے وہ چاہے اپنا رسول بنائے ۔ اس نے آدم کے آگے جھُکنے کا حکم نہ مانا اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے اتباع کا حکم نہیں مان رہے ہو۔ اس کے ساتھ تمہاری یہ مشابہت س اس حد پر ختم نہ ہو جائے گی، بلکہ تمہارا انجام بھی پھر وہی ہو گا جو  اس کے لیے مقدر ہو چکا ہے ، یعنی دنیا میں خدا کی لعنت، اور آخرت میں جہنم کی آگ۔

اس کے ساتھ اس قصے کے ضمن میں دو باتیں اور بھی سمجھائی گئی ہیں ۔ ایک یہ کہ جو انسان بھی اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کر رہا ہے وہ دراصل اپنے اُس ازلی دشمن، ابلیس کے پھندے میں پھنس رہا ہے جس نے آغاز آفرینش سے نوع انسانی کو اغوا کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے ۔ دوسرے یہ کہ وہ بندہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں انتہائی مبغوض ہے جو تکبّر کی بنا پر اس کی نافرمانی کرے اور پھر اپنی اس نافرمانی کی روش پر اصرار کیے چلا جائے ۔ ایسے بندے کے لیے اللہ کے ہاں کوئی معافی نہیں ہے ۔