اس رکوع کو چھاپیں

سورة الزمر حاشیہ نمبر۳

 یہ ایک نہایت اہم آیت ہے جس میں دعوت اسلام کے اصل مقصود کو بیان کیا گیا ہے ، اس لیے اس پر سے سرسری طور پر نہ گزر جانا چاہیے ، بلکہ اس کے مفہوم و مدعا کو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کے بنیادی نکات دو ہیں جنہیں سمجھے بغیر آیت کا مطلب نہیں سمجھا سکتا۔ ایک یہ کہ مطالبہ اللہ کی عبادت کرنے کا ہے۔دوسرے یہ کہ ایسی عبادت کا مطالبہ ہے جو دین کو اللہ کے لیے خالص کرتے ہوئے کی جائے۔
عبادت کا مادہ عبد ہے۔ اور یہ لفظ ’’ آزاد‘‘ کے مقابلے میں ’’ غلام ‘‘ اور ’’مملوک‘‘ کے لیے عربی زبان میں مستعمل ہوتا ہے۔  اسی معنی کے لحاظ سے ’’عبادت ‘‘ میں دو مفہوم پیدا ہوئے ہیں۔ ایک پوجا اور پرستش، جیسا کہ عربی زبان کی مشہور و مستند لغت ’’ لسان العرب‘‘ میں ہے ، عَبَدَ اللہ، تَألَّہٗ لَہٗ۔ وَ التَّعَبُّدُ، التَّنَسُّکُ۔ دوسرے ، عاجزنہا طاعت اور برضا و رغبت فرمانبرداری، جیسا کہ لسان العرب میں ہے ، العبادۃ، الطاعۃ۔ و معنی العبادۃ فی للغۃ الطاعۃ مع الخضوع۔  وَکل من دان الملک فھر عبدٌ لِہٗ (وَقَوْمُھُمَا لَنَا عَا بِدُوْنَ)۔ والعابد، الخاضع لربہ المستسلم المنقاد لامرہ۔ عبد الطاغوت، اطاعَہ یعنی الشیطان فیما سَوَّل لہ واغواہ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ، ای نطیع الطاعۃ التی یخضع معھا۔ اُعْبُدُوْارَبَّکُمْ، اطیعواربَّکم۔ پس لغت کی ان مستند تشریحات کے مطابق مطالبہ صرف اللہ تعالیٰ کی پونا اور پرستش ہی ک نہیں ہے بلکہ اس کے احکام کی بے چون و چرا اطاعت، اور اس کے قانونِ شرعی کی برضا و رغبت پیروی، اور کے امر و نہی کی دل و جان سے فرمانبرداری کا بھی ہے۔
دین کا لفظ عربی زبان میں متعدد  مفہومات کا حمل ہے :
ایک مفہوم ہے غلبہ و اقتدار، مالکانہ اور حاکمانہ تصرُف، سیاست و فرمانروائی اور دوسروں پر فیصلہ نافذ کرنا۔ چنانچہ لسان العرب میں ہے وَ انْ النَّا سَ، ای قھرھم علی اطاعۃ۔ دِنْتُھم، ای قَھر تُھم۔ دِنتُہٗ  سُسْتُہٗ  سملکتُہٗ۔ وفی الحدیث الکَیِّس من داننفسہٗ، ای اذلَّھا و استعبدھا۔ الدَّ یَّان، القاضی، الحَکَم، القھّار۔ ولا انت دیَا نی، ای لستَ بقا ھر لی فَتَسُوس امری۔ مَاکَا نَ لِیَأ خُذَ اَخَا ہُ فِیْ دِینِ الْمَلِکِ، ای فی قضاء الملک۔
دوسرا مفہوم ہے اطاعت، فرمانبرداری اور غلامی۔ لسان العرب میں ہے الدین، اطاعۃ۔ دِنْتُہٗ  و دِنْتُ لَہٗ  ای اطعتُہٗ۔ ولدین للہ، انماھو طاعتہٗ ولاتعبد لہٗ۔ فی الحدیث اُریدُ من قریشٍ کلمۃ تَدِین لھمْ بھَا العرت،  ای تطیعھم و تخضع لھم۔ ثم دانت بعد الرباب، ای ذلّت لہ و اطاعَتْہُ۔یمرقون من الدین، ای انھم یخرجون من طاعۃ الامام المفترض اطاعۃ۔ المدین، العبد۔ فَلَوْ لَا اِنْ کُنْتُمْ غَیْرَ مَدِیْنِیْنَ، ای غیر مملوکین۔
تیسرا مفہوم ہے وہ عادت اور طریقہ جس کی انسان پیروی کرے۔ لسان العرب میں ہے الدین، العادۃ و الشأن۔یقال مازال ذٰلک دینی و دیدَنی، ای عادتی۔
ان تینوں مفہومات کو ملحوظ رکھتے ہوئے دین کے معنی اِس آیت میں اُس ’’ طرز عمل اور اس رویّے کے ہیں جو کسی کی بالاتری تسلیم اور کسی کی اطاعت قبول کر کے انسان اختیار کرے۔‘‘ اور دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اس کی بندگی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ’’ آدمی اللہ کی بندگی کے ساتھ کسی دوسرے کی بندگی شامل نہ کرے ، بلکہ اسی کی پرستش، اسی کی ہدایت کاس اتباع اور اسی کے احکام و اوامر کی اطاعت کرے ‘‘۔