اس رکوع کو چھاپیں

سورة الزمر حاشیہ نمبر۳۵

طاغوت طغیان سے ہے جس کے معنی سرکشی کے ہیں۔ کسی کو طاغی (سرکش ) کہنے کے بجائے اگر طاغوت (سرکشی )کہا جائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ انتہا درجے کا سرکش ہے۔ مثال کے طور پر کسی کو کسی کو حَسِین کے  بجائے اگر یہ کہا جائے کہ وہ حُسن ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ خوبصورتی میں درجہ کمال کو پہنچا ہوا ہے۔ معبود ان غیر اللہ کو طاغوت اس لیے کہا گیا ہے کہ اللہ کے سوا دوسرے کی بندگی کرنا تو صرف سرکشی ہے مگر جو دوسروں سے اپنی بندگی کرائے وہ کمال درجہ کا سرکش ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول، صفحات  196۔197۔366۔367۔  373۔ جلد دوم صفحہ 540)۔ طاغوت کا لفظ یہاں  طواغیت، یعنی بہت سے طاغوتوں کے لیے استعمال کیا گیا ہے ، اسی لیے  اَنْ یَّعْبُدُوْ  ھَا  فرمایا گیا۔ اگر واحد مراد ہوتا تو یَعْبُدُوْہُ  ہوتا۔