اس رکوع کو چھاپیں

سورة الزمر حاشیہ نمبر۷١

 یہ خطاب تمام انسانوں سے ہے ، صرف اہل ایمان کو مخاطب قرار دینے  کے لیے کوئی وزنی دلیل نہیں ہے۔ اور جیسا کہ علامہ ابن کثیر نے لکھا ہے ، عام انسانوں کو مخاطب کر کے یہ ارشاد فرمانے کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ بغیر توبہ و انابت کے سارے گناہ معاف کر دیتا ہے ، بلکہ بعد والی آیات میں اللہ تعالیٰ نے خود ہی وضاحت فرما دی ہے کہ گناہوں کی معافی کو صورت بندگی و اطاعت کی طرف پلٹ آنا اور اللہ کے نازل کیے ہوئے پیغام کی پیروی اختیار کر لینا ہے۔ دراصل یہ آیت ان لوگوں کے لیے پیغام اُمید لے کر آئی تھی جو  جاہلیّت میں قتل، زنا، چوری، ڈاکے اور ایسے  ہی سخت گناہوں میں غرق رہ چکے تھے ، اور اس بات سے مایوس تھے کہ یہ قصور کبھی معاف ہو سکیں گے۔اُن سے فرمایا گیا ہے کہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ، جو کچھ بھی تم کر چکے ہو اس کے بعد اب اگر اپنے رب کی اطاعت کی طرف پلٹ آؤ تو سب کچھ معاف ہو جائے گا۔ اس آیت کی تاویل ابن عباس، قتادہ، مجاہد اور ابن زیدؒ نے بیان کی ہے (ابن جریر،  بخاری،مسلم، ابو داؤد، ترمذی )۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم، ص 466 تا 468۔