اس رکوع کو چھاپیں

سورة المومن حاشیہ نمبر۲۷

 یعنی دنیا میں تو بہت سے بر خود  غلط لوگ اپنی بادشاہی و جبّاری کے ڈنکے پیٹتے رہے، اور بہت سے احمق ان کی بادشاہیاں اور کبریائیاں مانتے رہے، اب بتاؤ کہ بادشاہی فی الواقع کس کی ہے؟ اختیارات کا اصل مالک کون ہے؟ اور حکم کس کا چلتا ہے؟ یہ ایسا مضمون ہے جسے اگر کوئی شخص گوش ہوش سے سنے تو خواہ وہ کتنا ہی بڑا بادشاہ یا آمر مطلق بنا بیٹھا ہو، اس کا زہرہ آب ہو جاۓ اور ساری جبّاریت کی ہوا اس کے دماغ سے نکل جاۓ۔ اس موقع پر تاریخ کا یہ واقعہ قابل ذکر ہے کہ سامانی خاندان کا فرمانروا انصر بن احمد(331۔301) جب نیشاپور میں داخل ہوا تو اس نے ایک دربار منعقد کیا اور تخت پر بیٹھنے کے بعد فرمائش کی کہ کاروائی کا افتتاح قرآن مجید کی تلاوت سے ہو۔ یہ سن کر ایک بزرگ آگے بڑھے اور انہیں نے یہی رکوع تلاوت کیا۔ جس وقت وہ اس آیت پر پہنچے تو نصر پر ہیبت طاری ہو گئی۔ لرزتا ہوا تخت سے اُترا، تاج سے  اُتار کر سجدے میں گر گیا اور بولا اے رب، بادشاہی تیری ہی ہے نہ کہ میری۔