اس رکوع کو چھاپیں

سورة المومن حاشیہ نمبر۳

 ’’ کفر‘‘ کا لفظ یہاں دو معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ ایک کفران نعمت۔دوسرے انکار حق۔پہلے معنی کے لحاظ سے اس فقرے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی آیات کے مقابلہ میں یہ طرز عمل صرف وہ لوگ اختیار کرتے ہیں جو اس کے احسانات کو بھول گئے ہیں اور جنہیں یہ احساس نہیں رہا ہے کہ اسی کی نعمتیں ہیں جن کے بل پر وہ پل رہے ہیں۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہے کہ یہ طرز عمل صرف وہی لوگ اختیار کرتے ہیں جنہوں نے حق سے منہ موڑ لیا ہے اور اسے نہ ماننے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ سیاق و سباق کو نگاہ میں رکھنے سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ یہاں کفر کرنے والے سے مراد ہر وہ شخص نہیں ہے جو مسلمان نہ ہو۔ اس لیے کہ جو غیر مسلم اسلام کو سمجھنے کی غرض سے نیک نیتی کے ساتھ بحث کرے اور تحقیق کی غرض سے وہ باتیں سمجھنے کی کوشش کرے جن کے سمجھنے میں اسے زحمت پیش آ رہی ہو، اگرچہ اسلام قبول کرنے سے پہلے تک اصطلاحاً ہوتا وہ بھی کافر ہی ہے، لیکن ظاہر ہے کہ اس پر وہ بات راست نہیں آتے جس کی اس آیت میں مذمت کی گئی ہے۔