اس رکوع کو چھاپیں

سورة المومن حاشیہ نمبر۵۳

 یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے گمراہی میں انہی لوگوں کو پھینکا جاتا ہے جن میں یہ تین صفات موجود ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ اپنی بد اعمالیوں میں حد سے گزر جاتے ہیں اور پھر انہیں فسق و فجور کی ایسی چاٹ لگ جاتی ہے کہ اصلاح اخلاق کی کسی دعوت کو قبول کرنے کے لیے وہ آمادہ نہیں ہوتے۔ دوسرے یہ کہ انبیاء علیہم السلام کے معاملہ میں ان کا مستقل رویہ شک کا رویہ ہوتا ہے۔ خدا کے نبی ان کے سامنے خواہ کیسے ہی بینات لے آئیں، مگر وہ ان کی نبوت میں بھی شک کرتے ہیں اور ان حقائق کو بھی ہمیشہ شک ہی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جو توحید اور آخرت کے متعلق انہوں نے پیش کیے ہیں۔ تیسرے یہ کہ وہ کتاب اللہ کی آیات پر معقولیت کے ساتھ غور کرنے کے بجاۓ کج بحثوں سے ان کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کج بحثیوں کی بنیاد نہ کسی عقلی دلیل پر ہوتی ہے، نہ کسی آسمانی کتاب کی سند پر، بلکہ از اول تا آخر صرف ضد اور ہٹ دھرمی ہی ان کی واحد بنیاد ہوتی ہے۔ یہ تین عیوب جب کسی گروہ میں پیدا ہو جاتے ہیں تو پھر اللہ اسے گمراہی کے گڑھے میں پھینک دیتا ہے جہاں سے دنیا کی کوئی طاقت اسے نہیں نکال سکتی۔