اس رکوع کو چھاپیں

سورة المومن حاشیہ نمبر۸۴

 اس آیت میں دو باتیں خاص طور پر قابل توجہ ہیں۔ ایک یہ کہ دعا اور عبادت کو یہاں مترادف الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ دعائیں عبادت اور جانِ عبادت ہے۔ دوسرے یہ کہ اللہ سے دعا نہ مانگنے والوں کے لیے ’’گھمنڈ میں آ کر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں ‘‘ کے الفاظ استعمال کیے گۓ ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ سے دعا مانگنا عین تقاضاۓ بندگی ہے، اور اس سے منہ موڑنے کے معنی یہ ہیں کہ آدمی تکبر میں مبتلا ہے اس لیے اپنے خالق و مالک کے آگے اعتراف عبودیت کرنے سے کتراتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے ارشادات میں آیت کے ان دونوں مضامین کو کھول کر بیان فرما دیا ہے۔ حضرت نعمان بن بشیر کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا  انْ الدعاء ھوا لعبادۃ ثم قرأ ادعونی استجب لکم۔ .....   یعنی دعا عین عبادت ہے، پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرائی(احمد، ترمذی، ابو داؤد و، نسائی، ابن ماجہ، بن ابی حتم، ابن جریر)۔ حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا الدعاء مخ العبادۃ، ’’ دعا مغز عبادت ہے ‘‘ (ترمذی)۔ حضرت ابوہریرہؓ فرمانے ہیں کہ حضورؐ نے ارشاد فرمایا من لم یسأل اللہ یغضب علیہ، ’’ جو اللہ سے نہیں مانگتا اللہ اس پر غضبناک ہوتا ہے۔‘‘ (ترمذی)
اس مقام پر پہنچ کر وہ عقدہ بھی حل ہو جاتا ہے جو بہت سے ذہنوں میں اکثر الجھن ڈالتا رہتا ہے۔ لوگ دعا کے معاملے پر اس طرح سوچتے ہیں کہ جب تقدیر کی برائی اور بھلائی اللہ کے اختیار میں ہے اور  وہ اپنی غالب حکمت و مصلحت کے لحاظ سے جو فیصلہ کر چکا ہے وہی کچھ لازماً رونما ہو کر رہنا ہے تو پھر ہمارے دعا مانگنے کا حاصل کیا ہے۔ یہ ایک بڑی غلط فہمی ہے جو آدمی کے دل سے دعا کی ساری اہمیت نکال دیتی ہے، اور اس باطل خیال میں مبتلا رہتے ہوۓ اگر آدمی دعا مانگے بھی تو اس کی دعا میں کوئی روح باقی نہیں رہتی۔ قرآن مجید کی مذکورہ بالا آیت اس غلط فہمی کو دو طریقوں سے رفع کرتی ہے۔ اولاً، اللہ تعالیٰ بالفاظ صریح فرما رہا ہے کہ ’’ مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا‘‘ اس سے صاف معلوم ہوا کہ قضا اور تقدیر کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس نے ہماری طرح معاذاللہ، خود اللہ تعالیٰ کے ہاتھ بھی باندھ دیے ہوں اور دعا قبول کرنے کے اختیارات اس سے سلب ہو گۓ ہوں۔ بندے تو بلا شبہ اللہ کے فیصلوں کو ٹالنے یا بدل دینے کی طاقت نہیں رکھتے، مگر اللہ تعالیٰ خود یہ طاقت ضرور رکھتا ہے کہ کسی بندے کی دعائیں اور التجائیں سن کر اپنا فیصلہ بدل دے۔ دوسری بات جو اس آیت میں بیان کی گئ یہ وہ یہ ہے کہ دعا خواہ قبول ہو یا نہ ہو، بہر حال ایک فائدے اور بہت بڑے فائدے سے وہ کسی صورت میں  بھی خالی نہیں ہوتی، اور وہ یہ ہے کہ بندہ اپنے رب کے سامنے اپنی حاجتیں پیش کر کے اور اس سے دعا مانگ کر اس کی آقائی و بالا دستی کا اعتراف اور اپنی بندگی و عاجزی کا اقرار کرتا ہے۔ یہ اظہار عبودیت بجاۓ خود عبادت، بلکہ جان عبادت ہے جس کے اجر سے بندہ کسی حال میں بھی محروم نہ رہے گا قطع نظر اس سے کہ وہ خاص چیز  اس کو عطا کی جاۓ یا نہ کی جاۓ جس کے لیے اس نے دعا کی تھی۔
نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشادات میں ان دونوں مضامین کی بھی پوری وضاحت ہمیں مل جاتی ہے۔ پہلے مضمون پر حسب ذیل احادیث روشنی ڈالتی ہیں :
حضرت سلمان  فارسی کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا : لا یرو القضاءَ الاالدعاء(ترمذی)۔’’قضا کو کوئی چیز نہیں ٹال سکتی مگر دعا۔‘‘ یعنی اللہ کے فیصلے کو بدل دینے کی طاقت کسی میں نہیں ہے، مگر اللہ خود اپنا فیصلہ بد ل سکتا ہے، اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب بندہ اس سے دعا مانگتا ہے۔
حضرت جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ما من احدید عو بدعاءٍ الّا اٰتا ہ اللہ ماسأں اوکف عنہ من السرء مثلہ مالم یدع اباثمٍ او قطیعۃ رحمٍ (ترمذی)۔’’ آدمی جب کبھی اللہ سے دعا مانگتا ہے، اللہ اسے یاتو وہی چیز دیتا ہے جس کی اس نے دعا کی تھی یا اسی درجے کی کوئی بلا اس پر آنے سے روک دیتا ہے، بشرطیکہ وہ کسی گناہ کی یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے ‘‘۔ اسی سے ملتا جلتا مضمون ایک دوسرے حدیث میں ہے جو حضرت ابو سعید خدریؓ نے حضورؐ سے روایت کی ہے۔ اس میں آپ کا ارشاد یہ ہے کہ مامن مسلم یدعوبدعوۃٍ لیس فیھا اثم ولا قطیعۃ رحمٍ الا اعطاہ اللہ احدیٰ ثلٰث، اما ان یعجل لہ، و اما ان یَدَّ خِر ھا لہٗ فی الاٰخرۃ واما ان یصرف عنہ من اسوء مثلھا (مسند احمد ) ’’ ایک مسلمان جب بھی کوئی دعا مانگتا ہے، بشرطیکہ وہ کسی گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ ہو، تو اللہ تعالیٰ اسے تین صورتوں میں سے کسی ایک صورت میں قبول فرماتا ہے۔ یا تو اس کی وہ دعا اسی دنیا میں قبول کر لی جاتی ہے۔ یا اسے آخرت میں اجر دینے کے لیے محفوظ رکھ لیا جاتا ہے۔ یا اسی درجہ کی کسی آفت کو اس پر آنے سے روک دیا جاتا ہے۔‘‘
حضرت ابو ہریرہؓ کا بیان ہے کہ حضورؐ نے فرمایا : اذا دعا احد کم فلا یقل اللھم اغفرلی ان شئت، ارحمنی ان شئت، ارزقنی ان شئت، وَلْیَعْزِم  مسئلتہٗ (بخاری)۔’’جب تم میں سے کوئی شخص دعا مانگے تو یوں نہ کہے کہ خدایا مجھے بخش دے اگر تو چاہے، مجھ پر رحم کر اگر تو چاہے، مجھے رزق دے اگر تو چاہے، بلکہ اسے قطعیت  کے ساتھ کہنا چاہیے کہ خدایا میری فلاں حجت پوری کر‘‘۔ دوسرے روایت حضرت ابو ہریرہؓ ہی سے ان الفاظ میں آئی ہے کہ آپ نے فرمایا ادعواللہ وانتم موقنون بالاجابۃ (ترمذی)’’ اللہ سے دعا مانگو اس یقین کے ساتھ کہ وہ قبول فرماۓ گا۔‘‘
ایک اور روایت میں حضرت ابوہریرہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ : یستجاب للعبد مالم یدعُ با ثم او قطیعۃ رحم مالم یستعجل، قیل یارسول اللہ ما الا ستعجال؟ قال یقول قد دعوت وقد دعوت  فلم اَرَیُستجاب لی فیستحسر عند ذٰلک وید ع الد ع الدعاْ(مسلم)۔‘‘ بندے کی دعا قبول کی جاتی ہے بشرطیکہ وہ کسی گناہ کی یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے، اور جلد بازی سے کام نہ لے۔ عرض کیا گیا جلد بازی کیا ہے یا رسول اللہ؟ فرمایا جلد بازی یہ ہے کہ آدمی کہے میں نے بہت دعا کی،  مگر میں دیکھتا ہوں کہ میری دعا قبول نہیں ہوتی، اور یہ کہہ کر آدمی تھک  جاۓ اور دعا مانگنی چھوڑ دے۔‘‘
دوسرے مضمون کو حسب ذیل احادیث واضح کرتی ہیں :
حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا لیس شئ اکرم علی اللہ من الدعاء (ترمذی۔ ابن ماجہ ) ’’ اللہ کی نگاہ میں دعا سے بڑھ کر کوئی چیز با وقعت نہیں ہے ‘‘۔
حضرت ابن مسعودؓ کی روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا : سلوااللہ من فضلہ فان اللہ یحبّ ان یسأ ل (ترمذی)۔ ’’ اللہ سے اس کا فضل مانگو کیونکہ اللہ اسے پسند فرماتا ہے کہ اس سے مانگا جاۓ۔’’
حضرت ابن عمر اور حضرت مُعاذ بن جَبَل کا بیان ہے کہ حضورؐ نے فرمایا: ان الدعاء  ینطع ممّا نزل و ممّا لم ینزل فعلیکم عباداللہ بالدعاء (ترمذی۔ مسند احمد ) ’’ دعا بہر حال نافع ہے ان بلاؤں کے معاملے میں بھی جو نازل ہو چکی ہیں اور انکے معاملے میں بھی جو نازل نہیں ہوئیں۔ پس اے بندگان خدا تم ضرور دعا مانگا کرو‘‘۔
حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ حضورؐ نے ارشاد فرمایا : یسأ ل احد کم ربہ حاجتہٗ کلّہ حتیٰ یسأ ل شسع بعلہٖ اذا انقطع (ترمذی) ’’ تم میں سے ہر شخص کو اپنی حاجت خدا سے مانگنی چاہیے، حتیٰ کہ اگر اس کی جوتی کا تسمہ بھی ٹوٹ جاۓ تو خدا سے دعا کرے۔‘‘ یعنی جو معاملات بظاہر آدمی کو اپنے اختیار میں محسوس ہوتے ہیں ان میں بھی تدبیر کرنے سے پہلے اسے خدا سے مدد مانگنی چاہیے، اس لیے کہ کسی معاملے  میں بھی ہماری کوئی تدبیر خدا کی توفیق و تائید کے بغیر کامیاب نہیں ہو  سکتی، اور تدبیر سے پلے دعا کے معنی یہ ہیں کہ بندہ ہر وقت اپنی عاجزی اور خدا کی بالا دستی کا اعتراف کر رہا ہے۔