اس رکوع کو چھاپیں

سورة حٰم السجدۃ حاشیہ نمبر١۵

 ان الفاظ میں الہ تعالیٰ نے اپنے طریق تخلیق کی کیفیت ایسے انداز  سے بیان فرمائی ہے جس سے خدائی تخلیق اور انسانی صنّاعی کا فرق بالکل  واضح ہو جاتا ہے۔ انسان جب کوئی چیز بنانا چاہتا ہے تو پہلے اس کا نقشہ اپنے ذہن میں جماتا ہے، پھر اس کے لیے مطلوبہ مواد جمع کرتا ہے، پھر اس مواد کو اپنے نقشے کے مطابق صورت دینے کے لیے پیہم محنت اور کوشش کرتا ہے، اور اس کوشش کے دوران میں وہ مواد، جسے وہ اپنے ذہنی نقشے پر ڈھالنا چاہتا ہے، مسلسل اس کی مزاحمت کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ کبھی مواد کی مزاحمت کامیاب ہو جاتی ہے اور چیز مطلوبہ نقشے کے مطابق ٹھیک نہیں بنتی اور کبھی آدمی کی کوشش غالب آ جاتی ہے اور وہ اسے اپنی مطلوبہ شکل دینے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک درزی قمیص بنانا چاہتا ہے۔ اس کے لیے پہلے وہ قمیص کی صورت کا تصور اپنے ذہن میں حاضر کرتا ہے، پھر کپڑا فراہم کر کے اسے اپنے تصور قمیص کے مطابق تراشنے اور سینے کی کوشش کرتا ہے، اور اس کوشش کے دوران میں اسے کپڑے کی اس مزاحمت کا مسلسل مقابلہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ درزی کے تصور پر ڈھلنے کے لیے آسانی سے تیار  نہیں ہوتا، حتیٰ کہ کبھی کپڑے کی مزاحمت غالب آ جاتی ہے اور قمیص ٹھیک نہیں بنتا اور کبھی درزی کی کوشش غالب آ جاتی ہے اور وہ کپڑے کو ٹھیک اپنے تصور کے مطابق شکل دے دیتا ہے۔ اب اللہ تعالیٰ کا طرز تخلیق دیکھیے۔ کائنات کا مادہ دھوئیں کی شکل میں پھیلا ہوا تھا۔ اللہ نے چاہا کہ اسے وہ شکل دے جو اب کائنات کی ہے۔ اس غرض کے لیے اُسے کسی انسان کاریگر کی طرح بیٹھ کر زمین اور چاند اور سورج اور دوسرے تارے اور سیارے گھڑنے نہیں پڑے، بلکہ اُس نے کائنات کے اُس نقشے کو جو اس کے ذہن میں تھا بس یہ حکم دے دیا کہ وہ وجود میں آ جاٴئے، یعنی دھوئیں کی طرح پھیلا ہوا مواد ان کہکشانوں اور تاروں اور سیاروں کی شکل میں ڈھل جاٴئے جنہیں وہ پیدا کرنا چاہتا تھا۔ اس مواد میں یہ طاقت نہ تھی کہ وہ اللہ کے حکم کی مزاحمت کرتا۔اللہ کو اسے کائنات کی صورت میں  ڈھالنے کے لیے کوئی محنت اور کوشش نہیں کرنی پڑی۔ادھر حکم ہوا اور ادھر وہ مواد سکڑ اور سمٹ کر فرمانبرداروں کی طرح اپنے مالک کے نقشے پر ڈھلتا چلا گیا، یہاں تک کہ 48 گھنٹوں میں زمین سمیت ساری کائنات بن کر تیار ہو گئی۔

اللہ تعالیٰ کے طریق تخلیق کی اسی کیفیت کو قرآن مجید میں دوسرے متعدد مقامات پر اس طرح بیان فرمایا گیا ہے کہ اللہ جب کسی کام کا فیصلہ کرتا ہے تو بس اسے حکم دیتا ہے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتا ہے۔ (ملاحظہ ہو تفہیم  القرآن جلد اول،ص 105۔252 259۔ جلد دوم، ص 541۔ 542۔ جلد سوم، ص 67۔جلد چہارم، یٰس، آیت  82۔ المومن، آیت 68)۔